کراچی پریس کلب ادبی کمیٹی 17 August 2019

نے میرے والد رئیس فروغ کی سینتسویں برسی پر ، ان کی یاد میں ایک خوبصورت تقریب منعقد کی . اس محفل کی صدارت ممتاز ادیب ، مدیر اور نقاد محترم اکرم کنجاہی نے کی. جب کہ مہمان خصوصی معروف ماہر تعلیم، ادیب ، شاعر ، محقق اور استاد الاساتذہ ڈاکٹر شاداب احسانی اور معروف شاعر پروفیسر اشتیاق طالب تھے. جبکہ مہمان اعزازی معروف شاعر اور احباب اہل ادب کے روح و رواں صفدرصدیق رضی تھے. نظامت کے فرائض معروف صحافی اور ادبی شخصیت موسیٰ کلیم نے ادا کیے. جن احباب نے رئیس فروغ کے فن اور شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں میر کارواں محترم زیب اذکار حسین ، محترم راشد عزیز، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی، انجلا ہمیش، مہر جمالی شامل ہیں. تقریب میں اردو ادب سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ خواتین و حضرات نے شرکت کرکے تقریب کی رونق بڑھائی. چند نام یہ ہیں. سینئر افسانہ نگار محترم نور الدیٰ سید، جناب اصغر خان، محترم کشور عدیل جعفری، محترم ظر معین بلے، محترم آصف علی آصف، محترم کامران مغل، محترم نجمی، محترم محمود، محترم شائق شہاب، سونی ہمیش، معروف شاعر محترم شکیل وحید ، اویس گوہر، شارق رئیس، فیضان رئیس، ارسلان رئیس و دیگر شامل ہیں.

تحریر۔۔ خالد دانش۔۔ رئیس فروغ۔۔ادباء انھیں شمس و قمر کہتے ہیں۔۔

‏‎Khalid Danish‎‏، ‏‎‏17 اگست‏ بوقت ‏‎2:07 PM‎‏

رئیس فروغ۔۔ادباء انھیں شمس و قمر کہتے ہیں۔۔
بقول شخصے۔۔کہ۔۔
شملہ بمقدار علم۔۔جتنا علم اتنی ہی پگڑی۔۔۔
تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ۔۔سلطنت ادب میں رئیس فروغ کا شملہ بہت اونچا محض اس لئے بھی ھے کہ جو اپنی پلکوں پر روشن ھونے والے چراغوں کو اس امید پر بالائے طاق رکھتے رھے کہ کوئی راہ ادب کا مسافر ان راستوں کا سراغ پا لے جن پر چل کر اک توانا ادب تخلیق ھوتا ھے۔۔فروغ ھمیشہ اپنے نام کی لاج رکھتے نظر آئے کہ فروغ ادب کے لئے بے حسی کی تیز و تند ھواوں کے مقابل چراغ ھاتھ میں روشن کئے کھڑے رہتے۔۔آندھیوں سے بے نیاز احساس کی شمعیں جلاتے اور لفظوں کے گل کھلاتے۔۔۔ادب کی آبرو بچاتے نظر آتے ریے۔۔۔
رئیس فروغ کو شعر و سخن کا ناز کہوں تو حق بجانب ھوں کہ۔۔۔آپ کی شاعری میں موجزن کلاسیکی روایت،حسن و جمال کی دلآویزی اور جذبوں کی حلاوت و احساسات کی نزاکت نے آپکی شاعری کو جو رعنائی و بانکپن عطا کیا ھے اسکی وجہ سے قدم قدم پر متنوع و معطر پیراہنوں کی سرسراہٹ محسوس کی جاسکتی ھے۔۔اور حسن کی کج ادائیوں و عشوہ طرازیوں،عشق کی پاسداریوں کے رومانی تلازموں کی دھنک جا بجا بکھری نظر آتی ھے۔۔۔مگر یہ سب قاری اور سامع کی ژرف نگاھی پر منحصر ھے کہ وہ رئیس فروغ کے کلام جاویدانی سے کیا کشید کرتا ھے۔۔۔
غزل میں اپکو جو علم و دانش اور شعور کے ساتھ خیال و بیان کی وسعتیں مقدر رہی ہیں انھیں عطیہ خداوندی کہا جاتا ھے۔۔یہی وجہ ھے کہ آپکی شاعری کا دامن بہت کشادہ ھے۔۔۔مضامین کے انبار موجزن ھیں۔۔اگر ھم رئیس فروغ کے کلام پر تدبر کریں تو تنوع،رنگا رنگی،ھمہ گیری،خیالات و کائنات کے مسائل پر شاعرانہ اور فلسفیانہ نظر کو داد دینا ضروری ھو گی۔۔رئیس فروغ کے لئے کہا جاتا ھے کہ آپ کا شمار ان جید شعراء میں ھے جنھیں عشق اور غم عشق کے ساتھ خیال کے کسی اظہار میں دشواری پیش نہیں آتی۔۔۔
اگر انکے گیتوں پر شرف گفتگو مل جائے تو۔۔۔مشتاق عاجز کا اک شعر رئیس فروغ کی نذر کرتا ھوں۔۔
پھر ساون کی رت ائی،پھر گھور بدروا چھایا
پھر بن میں کویل بولی،پھر گیت کسی نے گایا۔۔
رئیس فروغ کے لکھے گیت تحت اللفظ سے ترنم تک ساز و آواز میں پیوست ہو کر سنگیت کو جنم دیتے رہے۔۔کہا جاتا ھے کہ گیت نگار جب یہ محسوس کرتا ھے کہ کوئی سر اسکے ذہن میں گنگنانے لگا ھے تو وہ تادیر اسکو کسی اندرونی سطح پر سنتا رہتا ھے اور ایک بار جب کلیدی بول موزوں ھو جائیں تو پھر گیت کا خلق ھونا کچھ مشکل نہیں رہتا۔۔رئیس فروغ کے لئے کہا جاتا ہے کہ جب وہ گیت تخلیق کرتے تو الفاظ قطار اندر قطار آتے چلے جاتے اور خود بخود سطروں میں جڑتے چلے جاتے ۔۔۔اور پھر۔۔۔میری ہمجھولیاں کچھ یہاں کچھ وھاں۔۔۔جیسے شہرہ آفاق گیت خوشبو بن کر چار سو پھیل گئے۔۔اور زبان زد عام ھو گئے۔۔
بچوں سے متعلق رئیس فروغ کی نظموں پر بات کروں تو۔۔
فارسی کا قول یاد آتا ھے کہ۔۔۔
جامہ آفتاب مے دو زد۔۔
سورج کو لباس پہنانا۔۔یعنی ناممکن کام کو آسانی سے کرنا۔۔
جی۔۔بچوں کے ادب پر کام کرنا حقیقی معنوں میں دشوار گزار صنف سخن ھے مگر رئیس فروغ نے بچوں کے ادب پر جو کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ انمٹ ھے۔۔جو نظمیں آپ بچوں کے لئے سرمایہ چھوڑ گئے ہیں وہ سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔۔فروغ ھمیشہ ان احباب سے نالاں ہی رھے جو بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔۔
آپ کا کہنا تھا کہ بچے ھماری قوم کا مستقبل ہیں انکی بہتر تربیت میں ھمیں خلوص اور سچائی کے ساتھ حصہ لینا ھے تاکہ مادر وطن کو مثالی قوم مل سکے۔۔اپ نے سادہ اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہوئے جدید علوم،فنون اور معلومات سے مزین نظمیں بچوں تک پہنچائیں۔۔۔جو چراغ راہ تسلیم کی جاتی ہیں۔۔
ھماری دعا ھے کہ ادب کی خدمت کو شعار سمجھنے والی عظیم الشان شخصیت رئیس فروغ کو رب العالمین اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔۔
تحریر۔۔ خالد دانش۔۔

وجدان سے تجربات کا سفر (رئیس فروغ) تنقید نگار: ۔ اکرم کُنجاہی

17 اگست 2019 (کراچی پریس کلب) ۔ ۔ ۔ تقریب بہ یاد رئیسفروغ

صدارت: ۔ اکرم کُنجاہی

مہمانِ خصوصی: ڈاکٹر شاداب احسانی، اشتیاق طالب

مہمانِ اعزازی:صفدر صدیق رضی

راقم الحروف کا صدارتی اظہار خیال جسے آج صبح مضمون کی شکل دی ہے ۔ فیس بک کے احباب کی نذر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وجدان سے تجربات کا سفر (رئیس فروغ)

تنقید نگار: ۔ اکرم کُنجاہی

ویسے تو رئیس فروغ نے اپنی مختصر زندگی میں ریڈیائی خاکے ،فیچرز اور ڈراموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے مگرہم ’’دادا‘‘ کی شعر گوئی تک محدود رہیں گے ۔ طلعت حسین کا کہنا ہے ہم سب انہیں عمر کی وجہ سے ’’‘دادا‘‘ نہیں کہتے تھے بل کہ اُن کی اُس محبت کی وجہ سے جس میں ایک ’’دادا‘‘ کی شفقت و شخصیت جھلکتی تھی،حتی کہ قمر جمیل بھی انہیں ’’دادا‘‘ ہی کہتے تھے ۔

جدیدحسیت کے حامل شعرا علامتی و استعاراتی رنگ میں دل کے جذبوں کو زبان دیتے تھے، وہ سدا بہار جذبے جو ہماری شاعری کی اساس کہے جا سکتے ہےں ، جن کی بنیاد بدلتے موسموں ، رنگوں اور خوشبووَں اور برکھا رتوں پر ہوتی ہے ۔ اُن کے ہاں کوئی فلسفہ یا مربوط فکر نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی نعرہ یا چیختا چنگھاڑتا نظریہ حملہ آور ہوتا ۔ نئی شاعری کی تحریک در اصل تجربات و مشاہدات پر وجدان و لاشعور کو تر جیح دیتی تھی ۔ چوں کہ وہ علامتی اسلوب میں موضوعی اظہار پر زیادہ یقین رکھتے تھے اِس لیے ایسے شعرا مشاعروں کے شاعر نہیں ہوتے، مشاعرے کی شاعری فکری و اسلوبیاتی سطح پر کچھ اور خصوصیات اور ترجیحات کی حامل ہوتی ہے کہ وہاں شاعر کی نظریں پیاسی اور سماعتیں تشنہ ہوتی ہیں ۔ فقط ایک لفظ ’’واہ‘‘ ہی اُن کے سوچ کی کھیتیاں سیراب کر سکتاہے ۔ مگر جدیدیت کی تحریک سے وابستہ شعرا سامع یا قاری کی پسندیدگی پر نہیں جاتے ۔

رئیس فروغ کی غزل کابہترین دور وہ تھا جب اُن کی ترجیح اُن کے معصوم تخیلات ( Periscopic vision ) تھے ۔ جن کی بنیاد اُن کے اظہارِ ذات اور انکشافِ ذات پر تھی ۔ اُن کے لیے Telescopic vision یعنی مشاہدات و تجربات کی اہمیت کم تھی ۔ قاضی اختر جونا گڑھی نے لکھا تھا : ۔ رئیس فروغ اپنی سرشت ، شعری تربیت اور لب و لہجے کے اعتبار سے خالصتاََ غزل اور اُس کی مخصوص تہذیب کے آدمی تھے‘‘سلیم احمد نے اسی بنیاد پراُن کی شاعری میں عصری آگہی اور مسائل کی کمی پر اپنے اخباری کالموں میں بات کی تھی ۔ اگرچہ اُن کی اِس بات سے اتفاق ضروری نہیں اور بہت سے ناقدین نے واضح اختلاف بھی کیا ۔

رئیس فروغ کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۔

۱ ۔ غزل

۲ ۔ پابند ، معراونثری نظم

۳ ۔ قومی و ملی نغمے ، ٹیلی وژن کے گیت اور نو نہال ادب

اُن کے قاری ہی نہیں ناقد کی بھی رائے ہے کہ اُس کی غزل اگرچہ تجربات و مشاہدات کے تنوع سے مالا مال ہے مگر وہ روایت کی اساس کے منکر بھی ہر گز نہ تھے ۔ اُن کی غزل میں وہی کیفیت ہے کہ برکھا رُت میں مور کا ناچ دیکھنے والی آنکھ کو مبہوت کر دے ۔ اگرچہ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع موجود ہے ۔ فکریات اور مضامینِ نو کی کمی نہیں لیکن اُن کے ہاں تازہ کاری اور نیا پن اسلوبِ بیاں کا ہے، یہاں شمس الرحمن فاروقی کی بات کو یقیناََ اہمیت دینا پڑتی ہے کہ تخلیق کو انفرادیت فکر نہیں اسلوبِ بیان عطا کرتا ہے ۔ بہر حال مواد اور اسلوب کی بحث بہت پرانی ہے ۔

رئیس نے زبان کے معاملے میں بہت وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہ میں اُن کے کلام میں ایک طرف تو جا بہ جا انگریزی زبان کے الفاظ(بیلون، ایش ٹرے، الوژن،کوبالٹ ریز، وارڈ بوائے،فیٹ، انجائنا،شپ یارڈ،بُلٹ،سی آف،شار ٹ سرکٹ،سائیکل،پسنجر، ڈسٹ بن،سیلو لاءڈ،بیڈ روم، ٹوئسٹ،اِن وزیبل،فرنیس، واش بیسن،شوکیس،کاسمو پولیٹن،ڈینجر زون،ڈنر، فٹ پاتھ،جمپر،پینو راما،پٹرول ٹینک،ایبسکونڈر، کوریڈور) بھی ملتے ہیں تو دوسری طرف اُردو زبان کے کچھ ایسے الفاظ کا استعمال بھی دکھائی دیتا ہے جو عام طور پر غیر شاعرانہ خیال کیے جاتے ہےں ۔ وہ اگرچہ سلیم احمد کی نسبت قمر جمیل کے قریب بلکہ اُن کے حلقہَ احباب میں شامل تھے مگر چند

مقامات ایسے ضرور ہیں جہاں اینٹی غزل ڈکشن بھی دکھائی دیتی ہے ۔ ایک مصرع’’بھونکتا بھی رہا کاٹتا بھی رہا‘‘ ۔ ایک نظم’’ ڈی ڈو ڈا‘‘ کی تین لائنیں ملاحظہ کیجیے (لفظ جو باغی ہو جائیں تو/جو بھی لکھنے پڑھنے آئے/ اُن کے ساتھ زنا کرتے ہےں )

اُن کی علامتوں اور استعاروں میں خواب، تما م عمر پر محیط ہے،خوبصورت ہے اور اسی کی کھڑکی سے خواب سے باہر کا منظر دیکھنا چاہتے ہےں ۔ انہوں نے استعارے قدرتی مناظر، کھیت کھلیانوں ، لہراتے آنچلوں ، پنگھٹوں ،اُڑتے بادلوں ، برکھ ارتوں ، ساون رت کے جھولوں ، باغ بہاروں ، تتلیوں اور جگنووَں سے کشید کیے ہیں ،خوبصورت ذہن کے شاعر تھے اور خوبصورتیاں تلاش کرتے تھے، وہ انسان کی شخصیت کا روشن پہلو دیکھتے اور اُس میں خیر کا عنصر ڈھونڈتے تھے ۔ آج ہر دوسرا شاعر جگنو، تتلیاں اور چڑیا کو شعر میں باندھنے میں لگا ہوا ہے جس نے شاید زندگی میں کبھی جگنو، تتلی نہیں دیکھی ہو گی ۔ رئیس چاہتے تھے کہ انسان اِن معصوم جانوروں سے جینے کا قرینہ سیکھیں ۔ ’’نیم کا پیڑ‘‘ ٹھنڈی چھاؤں ، مہمان نوازی اور مشرقی تہذیب کی علامت ہے، وہ نیم کے پیڑ تلے بیٹھ نے والے بزرگوں کو سچے، کھرے، محبت نواز سمجھتے تھے ۔

اُن کے غزلیہ موضوعات میں احساس نا تمامی و نا آسودگیاہم ہے جو کسی بھی تخلیق کار کا اثاثہ ہوتا ہے، اُن کے ہاں ایک تشنگی کا احساس ہے ۔ وہ محبوب کے روپ کو ہر رنگ میں دیکھنے کے متمنی ہیں ۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا تھا

الف ایہہ تن میرا چشماں ہووے تے میں دلبر ویکھ نہ رجّاں ہو

لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں اک کھولاں اک کجّاں ہو

اتنا ڈٹھیاں صبر نہ آوے تے میں ہور کدے ول بھجّاں ہووے

دلبر دا دیدار اے باہومینوں لکھ کروڑاں حجّاں ہو

رئیس کا کہنا ہے

تری بہار کو کس کس لباس میں سوچوں نفس نفس تو بدلتی ہوئی طلب ہے میاں

مگر اُن کی انفرادی محبت ایک انسان کی محبت کا روپ دھار لیتی ہے ۔ کہیں وہ نیم کی چھاؤں میں بیٹھے بڑے بوڑھوں کی مہمان نوازی اور محبت و شفقت کا حوالہ دیتے ہےں اور کبھی خود کہتے ہیں کہ مجھے یہ پودے، پنچھی اور پیارے پیارے لوگ بہت عزیز ہیں ، اگر میرے نام کے بادل آ جائیں تو میرے اِن پیاروں پر برسا دینا ۔ مزید براں انہوں نے اپنے کلام میں معاشرے کے ایک عام پسماندہ فرد کا کرب بیان کیا ہے کہ آپ نے اُس کا جلتا ہوا گھر تو ملاحظہ کیا ہے مگر اِس بات پر توجہ نہیں دی کہ اُس کے جلتے گھر کے ساتھ اُن کی کتنی تمنائیں بھی جل کر راکھ ہوئی ہیں ۔ ایک مزدور کا المیہ بھی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہےں کہ اے دھرتی تیری کوکھ میں لاکھ خزان ہوں گے، کیسے کیسے میٹھے چشمے نہاں ہوں گے مگر میری عمر تو کنکر پتھر ڈھونے صرف ہو گئی ہے مجھے تےرے خزانوں سے کیا لینا ۔

آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دیناجتنے بھی ہیں روپ تمہارے جےتے جی دکھلا دینا

ہجر کی آگ میں اے ری ہواوَ دو جلتے گھر اگر کہیں تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا

کہاں سے اٹھتے ہیں بادل کہاں برستے ہےں ہمارے شہر کی آنکھوں میں اک سوال سا ہے

نیم کی چھاؤں میں بیٹھ نے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہےں کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اُس کو دودھ پلا دینا

تےرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملےجس نے ہمارا دل توڑا ہے اُس کو بھی بیٹا دینا

وہ اک ہجوم تھا گرتے ہوئے درختوں کاپکارتے تھے سہارا ملے سہارا ملے

بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو، جلا تو میں بھی ہوں

میں دوسروں کے جہنم سے بھاگتا ہوں فروغفروغ اپنے لیے دوسرا تو میں بھی ہوں

دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر میں تو صرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں

دریا تھے اور اُن کی گزر گاہ تھی مگراک دن سجے سجائے گھروں سے گزر گئے

ہم نے اپنایا درختوں کا چلنخود کبھی بیٹھے نہ اپنی چھاؤں میں

یہ مرے پودے یہ مرے پنچھی یہ مرے پیارے پیارے لوگمیرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا

اُن کے ہاں جمالیاتی احساس اپنے جوبن پر دکھائی دیتا ہے ۔ وہ حسن اور خوبصورتی سے پیار کرنے والے ہیں ۔ عشق کو کارِ مسلسل اور محبوب کو صبح ِ بہاراں کا حسیں خواب سمجھتے ہےں ۔ عشق و محبت اور اُس کے تلازمات کا بیان رئیس فروغ کی شاعری کی اساس ہے ۔ انہوں نے دل کے نازک جذبوں اور قلبی احساسات کو اپنے مخصوص رنگ میں پیش کیا ہے ۔ اُن کے کلام کا وہ حصہ پُر تاثیر اور شعریت سے مملو ہے ،جس میں وجدان و لاشعور اُن کے غزل گوئی کی بنیاد ہیں ۔

عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیےایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

اتنا سچا ایساجھوٹاکون ملے گا اور تجھےتو مٹی کا ایک بدن ہے میں تجھ کو گلفام کہوں

تو صبح ِ بہاراں کا حسیں خواب ہے پھر بھی آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر

خواہش کسی کنیزِ خوش آواز کی طرحخوابوں کی وادیوں میں غزل گائے ہے صنم

تیرا تو انگ انگ مجھے رات رات بھریادوں کے آئینے میں نظر آئے ہے صنم

کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں بہت بُرا نہیں ، اتنا بُرا تو میں بھی ہوں

تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کوتمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا

یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گاہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا

کل کسی اجنبی کا حسن مجھےیاد آیا تو یاد آئے گیا

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اُتر جاتے ہےں اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہےں

حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے

رئیس فروغ کے مجموعے ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں بے ثباتی پر بہت سے اشعار ملتے ہےں ۔ بے ثباتی کا احساس انسان کو تکبر سے محفوظ رکھتا ہے، یوں انسان تصوف کی طرف راغب ہوتا ہے اور فلسفہَ اخلاق جنم لیتا ہے ۔ اُن کے کلام میں جا بہ جا انسان کے دنیا میں سیلانی ہونے،فشارِ مہ و سال سے بدن کے غبار ہو جانے،خرامِ عمر سے انسان کے پائمال ہو جانے، جینے کی مزدوری نقدِ مرگ کی صورت ملنے اور دنیا کے بے ثبات ہونے کا ذکر ملتا ہے ۔ ہر شخص بس میں سوار مسافر کی طرح ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی کھڑا ہوا ہے ، کوئی بیٹھا ہوا ۔

کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں سیلانیوں کو خطرہَ سیلِ بلا نہیں

پیارے اتنا یاد رہے میں اک دن مر جاؤں گا

بدن فشارِ مہ و سال سے غبار ہوافقیر محو تماشائے ہست و بود میں تھا

خرامِ عمر ترا کام پائمالی ہےمگر یہ دیکھ ترے زیرِ پا تو میں بھی ہوں

دھوپ مسافر چھاؤں مسافرآئے کوئی کوئی جائےگھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے یا رستہ ہے

جو ہے سو پسنجر ہے مگر فرق تو دیکھوبیٹھا ہے کوئی بس میں کوئی بس میں کھڑا ہے

جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں نقدِ مرگ عطا ہوتا ہے صلہ کہوں انعام کہوں

سلیم احمد اُن کی غزل میں معاشرتی مسائل کی کمی پر معترض تھے،حالانکہ شاعر کا مسئلہ تخلیقِ شعر ہے جو شعور و لا شعور کے فشار کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ یہ بات کچھ حد تک درست ہے، اِس لیے کہ اُن کی شعر گوئی کے عروج کا زمانہ وہ تھا جب انہوں نے تجربات و مشاہدات کو اپنے معصوم تخیلات پر فوقیت نہیں دی تھی ۔ مگر کلی طور پر درست نہیں کہا جا سکتا ۔ اِس لیے کہ اُن کے کلام میں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو زندگی اور اُس کے متعلقات کی بھر پورعکاسی کرتے ہےں ۔ خواجہ غلام فرید نے کیا خوب کہا تھا

جس تن لاگے سو تن جانے دوجا کوئی نہ جانے عشق آسان نال کی کیتی اے لوک مریندے طعنے

اب رئیس فروغ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے

اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھیجس کے بازو میں کئی دن سے دکھن ہے لوگو

اونچی مسہریوں کے، دھلے بستروں پہ لوگخوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے

شارٹ سرکٹ سے اُڑی چنگاریاں صدر میں اک پھول والا جل گیا

تپ رہا ہے ریگ زارِ زندگییار کیوں کرتے ہو جھگڑا دھوپ میں

ناقدین کی بڑی اکثریت نے اُن کی غزل کوزیادہ اہمیت دی ہے ۔ اُن کی نثری نظم پر کوئی بات نہیں کرتا ۔ شاید ہم اہل ہی نہیں ہیں ۔ غزل کے استعارے اور علامتیں ہمارے دیہی ماحول، گردو پیش اور معاشرت سے کشید کی گئی ہیں جب کہ نثری نظم کی علامتیں قدرے اجنبی ہیں کہ اُن پر مغرب کے اثرات واضح محسوس کیے جا سکتے ہےں ۔ اُن کے کلام میں کئی ایک پابند نظ میں بھی ملتی ہیں ، جواُن کے مسترد شدہ کلام کا حصہ ہیں جو بعد ازاں ’’رئیس فروغ، نئی جہتیں ‘‘ کے نام سے بھی شاءع کیا گیا ۔ میں دو نظموں کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا: ۔

’’عظمتِ آدم ‘‘ میں انسان کی آفاقی شخصیت کا تصور اُبھرتا اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان ایک ذرہَ خاک ہے مگر آسمان گیر ہے اورسورج کی شعاعوں کو گرفتار کرتا ہے ۔ اقبال ہماری ادبی تاریخ کے وہ اہم ترین شاعر ہیں جن کے ہاں عظمتِ آدم کا تصور باقاعدہ ایک فلسفے کی صورت میں ملتا ہے ۔

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہےں کہیں ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے

اقبال کے بعد احمد ندیم قاسمی کا بشر دانش ور طبقے کو چونکا دیتا ہے

ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک

جو کچھ بھی ہے آدم کا نشانِ کفِ پا ہو

ممکن ہے کہ جنت کی بلندی سے اُتر کر

انسان کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہو

پھر جب انہوں نے اپنی نظم میں کہا کہ ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ تو ادبی دنیا میں ہلچل پیدا ہو گئی ۔ سلیم احمد جیسے کئی دانش وروں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہیں قاسمی صاحب کے شعر پڑھنے کا انداز پسند نہیں تھا ۔ دوسری طرف ممتا ز حسین جیسے ادیب و دانش ور سر دھننے لگے اور عش عش کرنے لگے ۔ رئیس فروغ کا آدم بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے، جو فرشتوں کے برعکس ایک مکمل ارتقا کے عمل سے گزر کر آج تسخیرِ کائنات کے قابل ہوا ہے ۔

’’آشوبِ آگہی‘‘ میں شاعرایک قبر ستان سے گزر ہوتا ہے، ایک شہید کی قبر دیکھتاہے،اور اُسے طاوَس سے تشبیہ دیتے ہیں ، طاوَس ایک خوش رنگ وحسین جانور ہے، اسلام کے عقیدے کے مطابق شہید مرتے نہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور قیامت تک اُن کے زخم تازہ رہتے ہیں ، اُن سے لہو رستا رہتا ہے ۔

رئیس فروغ کے عہد میں دو مکاتبِ فکر ادبی حوالے سے بہت سر گرم تھے: ۔ سلیم احمد جن کی پشت پر پروفیسر حسن عسکری جیسی قابل شخصیت تھی، جنہوں نے ترقی پسندوں سے ہمیشہ فاصلہ رکھا ۔ فرانسیسی زبان و ادب پر دسترس رکھتے تھے اور قمر جمیل مغربی علوم سے حد درجہ متاثر تھے ۔ ملٹن، کولرج، ورڈز ورتھ، شیکسپئیر، ٹینی سن، اسکاٹ جیمز، ڈرائیڈن، لانجائنس، روسو، میتھیو آرنلڈ کی کے افکار، تنقید اور شاعری سے اثرات قبول کر رہے تھے ، مشرقی ادبی اقدار و افکار سے دور نکل گئے تھے ۔ رئیس ،قمرجمیل کے حلقہَ احباب میں شامل تھے ۔ نئے تجربات کے فطری طور پر اہل اور عادی تھے ۔ ایک دلیر شاعر تھے کہ عمر کی آخری دو دہائیوں میں انہوں نے غزل گوئی سے کنارہ کر لیا تھا اور قمر جمیل ہی کی تحریک پر نثری نظم کہتے رہے ۔

حالانکہ وہ زمانہ نثری نظم کی شدید مخالفت کا تھا ۔ ۴۶۹۱ جب نثری نظم کا پہلا مجموعہ سجاد ظہیر کا ’’پگھلا نیلم‘‘ شاءع ہوا تو اُس پراعتراضات کی بوچھاڑ کر دی گئی ۔ کہا گیا کہ اُس مجموعے میں بہت سے مصرعے موزوں ہیں تو یہ نثری نظم کیسے ہو ہو گئی ۔ مزید براں وہ خود بھی غالب، جگر اور جوش کے معترف تھے ۔ غالب رفعتِ خیال اور موضوعاتی تنوع کے شاعر، جگر غزل کی کلاسیکی روایت کی امین، جوش ہمہ صفت موصوف ، شاعر انقلاب و شباب ان شخصیات کے توصیف میں رئیس کی نظ میں موجود ہیں مگر پھر بھی وہ علامتی نثری نظ میں لکھنے لگے ۔ علامت اور استعارے کے حوالے سے وہ مبارک احمد اور قمر جمیل کے قریب دکھائی دیتے ہےں ۔ ّآخر الذکر کی طرح انہوں نے بھی جنگل اور سورج کو کئی نظموں یا غزلوں میں استعارے کے طور پر برتا ہے ۔

وہ بلیغ اشاریت سے کام لیتے تھے ، بہر حال جو عام قاری کی علمی و فکری سطح سے بلند تھی ۔ یہ اشاریت اِس نوعیت کی تھی کہ جس کی طرف مشہور مورخ والٹر اسکاٹ نے اپنی تاریخ کے آغاز میں اشارہ کیا تھا: ۔ اگر قلو پطرہ کی ناک چپٹی ہوتی تو آج تاریخِ عالم مختلف ہوتی‘‘ اِس سے مُراد یہ ہے کہ اگر قلو پطرہ غیر معمولی خوب رو نہ ہوتی تو جولیس سیزر مصر پر حملہ آور نہ ہوتا اور قلو پطرہ کو اپنی ملکہ بنا لینے کی بنیاد پر اپنے جنرلوں کی سازش کا شکار نہ ہوتا، یقیناَ ۔ اگر یہ تاریخی حوادث وقوع پذیر نہ ہوتے تو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ آج ضرور مختلف ہوتی‘‘

نثری نظم میں رئیس فروغ کی علامتیں ,استعارے: ۔ گرتے ستارے، اُڑتا ہوا بادل، پھیلا ہوا جنگل،دھواں ، سبز لہو، چمگادڑ، گھوڑا،کالاجھنڈا،سورج کا بیٹا،ہوا کا لڑکا،اژدھے، نئے پرندے،مٹیالی راتیں ، کالے بستر،سگِ ہم سفر،بارہ دری، ساتوں زینہ،موم کی مریم،آٹھواں سورج ،ہری شاخ;سانپ والی، زرد مسافر وغیرہ ہیں ۔ رئیس کی نثری نظموں پر ناقدین نے بالکل بات نہیں کی ۔ یہ رویہ قابلِ ستائش نہیں کہا جا سکتا ۔ لہذامناسب ہو گا کہ اُن کی چند نثری نظموں پر بات کی جائے: ۔

’’نئے شہروں کی بنیاد‘‘(اگر جنگل کاٹ کر ، گاؤں کی تہذیب ختم کر کے شہر آباد کیے جائیں تو وہ اس بات کے خلاف دکھائی دیتے ہےں ،انہیں تو وہ منظر مرغوب ہیں کہ ہاتھ باگ پر ہے اور رکاب میں پاؤں ہیں ۔ شیر جنگلوں ہی میں اچھے لگتے ہےں ، شہر میں جاروب کشی کرتے نہیں ۔

شہروں کے چہرہ گر جنہیں مرنا تھا مر گئےپیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کر گئے

’’ریت کا شہر‘‘ (اس نظم میں اپنے شہر سے محبت کا اظہار ہے ۔ اُن کے بہ قول جس میں برف پوش چوٹیاں نہ سہی مگر یہ جو سمندر میرے شہر کے ساتھ بہہ رہا ہے ، وہ میری ہی ذات ہے)

’لیاری پیاری ‘‘ میں کراچی سے محبت کا اظہار کیا گیا ہے،ساون بھا دوں انہیں ویسے بھی مرغوب ہے، منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہےں کہ اِس بار اتنی بارش ہوئی ہے کہ سڑک کے کتوں کا سائز چھوٹا ہو جائے گا ۔

’’سانپ والی‘‘ (سن ری سجنی / جنم جنم سے/ ایک شریر/ آدھا تےرا آدھا میرا/تو مر جائے تو/ سارا میرا) کبھی اُسے زہر بھری، کبھی زہر کی لہر کبھی

سانپ والی کہتے ہےں ۔

’ائیر پورٹ‘‘ میں محبوب کو سی آف کرنے کی لذت کا بیان ہے

’’شیرانی‘‘بچپن میں بچے اکثر بڑی خواتین جو اُن سے بہت پیار کرتی ہےں ، وہ کہتے ہےں کہ بڑے ہو کر اِن سے شادی کریں گے ۔ ایسا ہی اِن کے ساتھ بھی ہوا کہ اب وہ سلمیٰ باجی قبرستان میں ہیں ۔

’’امپوسٹر‘‘ کسی ایس جگہ کی جستجو ہے جہاں انسان کا اندرون اور بیرون دونوں روشن ہوں

’’جنریشن گیپ ‘‘ میں انہیں گئے سالوں کے زندہ لمحوں کی تلاش ہے

’’ایک رومانی قصے کا عنوان‘‘ ۔ وہ تو ایک مردہ عورت کی قبر پر پھول چڑھانے ّآیا تھا ۔ بارش ہو گئی، شکستہ قبروں سے لاشیں اُبل پڑیں اور ہر طرف سے مردہ عورتوں کی آوازیں آنے لگیں ’’ میں تیری محبوبہ ہوں ‘‘

’’ایکسیڈنٹ‘‘ ایک پیاری سی لڑکی روز اُس طرف سے گزرتی ہے، شاعر سمجھتا ہے کہ اسکول جاتی ہے مگر ایک دن وہ اُسے فٹ پاتھ پر نظر آتی ہے، تو اُس کے لیے یہ ایک بڑا جذباتی حادثہ ہوتا ہے ۔ اُس کے فٹ پاتھ پر نظر آنے کی کئی تعبیریں ہو سکتی ہیں ۔

’’پینوراما‘‘ ہمارے عہد کی منافقتیں ظاہر کی گئی ہیں کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہےں کچھ

’’تنہا لوگ‘‘ میں رگبِی اکثرشادی بیاہ والے دن صدقہ خیرات لینے چرچ میں آتی،اسی طرح اپنی عمر گزار کےایک دن لمبی نیند سو گئی ۔ فادر میکنزی خاموشی سے اُسے دفنا کے مٹی میں لتھڑے ہوئے اپنے ہاتھ صاف کرتے واپس لوٹ آئے ۔

’’تکا کارنر‘‘ کے کونے والے صوفے پر وہ ہری شاخ کو دیکھ لیتا ہے ۔

اچھی لگیں جو سبز لبادے میں ٹہنیاں پھر شوقِ آشیاں مجھے بے چین کر گیا(منیر صابری)

’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں ایک نظم ’’کالادن‘‘ کے نیچے درج ہے کہ یہ چارلس بادلئیر کی نظم کا ترجمہ ہے ۔ دن عام طور پر امید ، رجائیت اور نئے عزم کی علامت ہوتا ہے ۔ مگر اِس نظم میں انتہا درجے کی مایوسی اور قنو طیت ہے،شاعر کو آسمان آہیں بھرتی روح کے اوپر ایک ڈھکنا محسوس ہو رہا ہے، دھرتی سیلی جیل لگ رہی ہے،مُردے تلاش کرنے والی ایمبولینس شاعر کی روح میں داخل ہوئی جا رہی ہے، کرب نے اُس کی کالی کھوپڑی میں اپنا کالا جھنڈا گاڑ رکھا ہے ۔ فرانسیسی شاعر چارلس بادلیئیر (1821 تا 1867) کو نثری نظم کا بانی خیال کیا جاتا ہے ۔ اُس کی اہم ترین کتاب (The flower of evil 1857 شاءع ہوئی تھی، جس کا موضوع اخلاقی انحطاط اور جنس تھا ۔ زندگی کے آخری 12برسوں میں انہوں نے نثری نظمیں بھی لکھیں جو (Paris Speen)کے نام سے شاءع ہوئیں ۔ کسی حد تک کہانی پن لیے ہوئے ، یہ ۰۵ نظ میں ہیں جو موضوعاتی اعتبار سے he flower of evil ہی کی توصیع کہی جا سکتی ہیں ۔ خود بادلئیر برتراں کو نثری نظم کا پہلا شاعر مانتا تھا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ یہ نظ میں لکھنے سے پہلے اُس نے برتراں کی نظموں کو 20 بار پڑھا تھا ۔ بادلئیر نے اپنے ایک سانیٹ میں ’’علامتوں کے جنگل‘ کا ذکر کیا ہے ۔ یہی جنگل در اصل تخلیق کاروں کا مطمعَ نظر ہوتا ہے جہاں سے وہ حقیقتیں تلاش کر کے لوٹتے ہیں ۔

مذکورہ نظم ’’کالادن‘‘ ہی نہیں ، رئیس فروغ کی علامتیں ، اسلوبِ بیاں ، لفظیات ، موضوعات ، حتی کہ اُن نظموں کے عنوان اور کردار بھی یہ ظاہر کرتے ہےں کہ وہ کہیں اور تخلیق ہوئی ہیں اور انہیں ترجمے کا جامہ پہنایا گیا ہے ۔

لیڈی ڈفرن(معری نظم ہے )، ہوا کا لڑکا، ڈاکٹر فانچو، ایسا بھی اک توتا،سگِ ہم سفر، وہ لڑکی، سات پُل والی سڑک،ڈی ڈو ڈا،بوسٹن پارٹی،ہیلو گڈبائی،تنہا لوگ، وہ ایک شہر ہے جلا ہوا اور غیر آباد،قبر اُس کے نام کی،یہ بات سر جان مارشل کو معلوم نہیں ،نتشے نے کہا

رئیس فروغ نے بہت سے گیت اور قومی و ملی نغمے بھی لکھے جو ناہید اختر،عابدہ پروین، مہناز، احمد رشدی، سلیم رضا،ریشما ں ،بلقیس خانم، عالگیر اور محمد علی شہکی، ایس بی جون، اور تاج ملتانی نے گائے ۔ یہاں میں صرف ایک گیت ہی کے حوالے پر اکتفا کروں گا: ۔

میری ہم جولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں (ریشماں )

بچوں کی نظ میں ابتدا ہی سے لکھتے رہے ۔ اُن کی یہ نظ میں ’’غنچہ‘‘ بجنور اور ’’مدینہ‘‘ بجنور میں شاءع ہوتی رہیں مگر جب وہ اسکرپٹ راءٹر کے طور پر ریڈیو سے منسلک ہو گئے تو ریڈیو کی سیدہ ناز کاظمی اور ٹیلی وژن کے عبید اللہ علیم، فہمیدہ نسرین اور سلطانہ صدیقی کے کہنے پر زیادہ تعداد میں بچوں کے گیت تخلیق کیے اور اصل شہرت انہیں کراچی ٹیلی سنٹر کے پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ سے ملی ۔ اُس پروگرام کے لیے وہ کئی برسوں تک لکھتے رہے ۔ 1979 میں بچوں کے عالمی سال کے موقع پر اسی پروگرام سے اُن کی منتخب نظ میں ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے نام سے شاءع کی گئیں ۔ اِن گیتوں میں شروع سے آخر تک ایک تخلیقی رو کار فرما نظر آتی ہے ۔ اِن نظموں میں عام روش سے ہٹ کر نصیحتیں ذرا کم کی گئی ہیں ۔ شاید اُن کا نقطہَ نظر یہ تھا کہ خشک نصیحتوں کی زیادتی بعض اوقات بچت کی شخصیت کے لیے مضر بھی ہو جاتی ہے ۔

اسی لیے محب عارفی نے کہا تھا کہ یہ گیت پڑھنے کے بعد دل چاہتا ہے کہ شروع سے پھر پڑھنے لگیں ‘‘ اور عبید اللہ علیم نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے کہ میں نے اُن سے کہا بچوں کے لیے بھی لکھیے اور بچو آپ گواہی دو گے کہ میں نے ٹھیک ہی کیا‘‘

میں نے گزارش کی تھی کہ وہ مشاعرے کے شاعر نہیں تھے ،وقتی واہ وا کے لیے نہیں لکھتے تھے ۔ اِس لیے کہ انہوں نے خود کو اپنے ہی رنگ میں پیش کیا، نگاہِ تماشائی کی فرمائش پر نہیں گئے ۔ اپنی اندر کے شخص کو مرنے نہیں دیا ۔ مزید براں اُن کی کئی غزلیں اول و آخر شاعرانہ انا کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں

اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکنمجھ میں رو پوش جو اک شخص ہے مر جائے گا

یہی خیال کہ برسے تو خود برس جائےسو عمر بھر کسی کالی گھٹا سے کچھ نہ کہا

ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کےملی سڑک پہ تو بادِ صبا سے کچھ نہ کہا

جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے

آدرش کو سینے سے لگائے ہوئے میں نےلکھا ہے اگر شعر تو فاقہ بھی کیا ہے

شاعر دادا رئیس فروغ‘‘ طاہر مسعود

طاہر مسعود
کتاب: اوراقِ ناخواندہ
شخصی خاکے
سال: 2016ء
صفحہ: 147

’’شاعر دادا رئیس فروغ‘‘

کبھی کبھی ’’دادا‘‘ بہت یاد آتے ہیں۔ ’’دادا‘‘ سے میری مراد رئیس فروغؔ ہیں۔ ایک بھولے بسرے شاعر، نہایت عمدہ، شریف النفس انسان۔ آدمی نہیں، انسان۔ آدمی تو خواہشات میں لت پَت ہوتا ہے۔ انسان وہ ہوتا ہے جو خود کو خواہشات سے بڑی حد تک آزاد کرلے۔ ایسا انسان بننے کے لیے بہ قول میرؔ فلک برسوں پھرنا پڑتا، خاک چھاننی پڑتی ہے، تب خاک کے پردے سے وہ برآمد ہوتا ہے جسے انسان کہتے ہیں۔ دادا سچ مُچ کے انسان تھے۔ تھے تو گوشت پوس کے ۔ ویسے ہی لوگوں کے بیچ رہتے تھے جیسے سب رہتے ہیں مگر ان کے رہنے سہنے اور زندگی کو برتنے کا اسلوب و انداز الگ تھا۔ کبھی کسی کی برائی نہ کرتے، کسی کو بُرا نہ کہتے۔ شعر کہتے خوب کہتے مگر بہت اصرار کرنے پر سناتے۔ شاید اس خیال سے کہ اصرار کرنے والے کا دل نہ ٹوٹ جائے۔ شعر سنانے کا انداز بھی بڑا معصومانہ تھا۔ سناتے ہوئے اک ذرا سا لہرا جاتے۔ مثلاً جب وہ کہتے؛
مٹّی کے کھلونے لینے کو
میں بالک بن کے مچل گیا
تو گردن میں ہلکا سا خم آجاتا، بائیں کندھے میں جنبش سی آجاتی اور وہ لہراجاتے، ہونٹوں پر معصومانہ سی مسکراہٹ کھیلنے لگتی۔ شوکت عابد بعد میں ان کی بڑی صحیح نقل اتارتے تھے۔ کمال کے شاعر تھے اور بے انتہاخوبیاں تھیں ان میں۔ کس کس کا ذکر کیا جائے۔
اُن سے پہلی ملاقات کبھی نہیں بھولتی۔ وہ پہلا دن تھا میرا جب میں نے ریڈیو اسٹیشن کراچی کے احاطے میں قدم رکھا تھا۔ تب مجھے معلوم نہ تھا کہ ریڈیو ایک تہذیبی مرکز ہے۔ اس کی کینٹین اور پروڈیوسروں کے کمروں میں ادبی محفلیں جمی رہتی ہیں اور شہر بھر کے ادبا شعرا، خوش ذوق طلبہ کا جم گھٹا سا رہتا ہے۔ ضمیر علی بدایونی کے کمرے میں سلیم احمد بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہی قمر جمیل ، ان کے پہلو میں اداکار طلعت حسین، کچھ اور ادیب شاعر ۔ عصمت زہرہ سب کے لیے چائے منگوارہی ہیں اور ادب، سیاست ، کلچر اور جانے کیا کیا مباحث چھڑے ہیں۔ کمرا سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہے اور بحث ہے گفتگو ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
ایسے ہی ایک کمرے میں اس روز میرے سامنے دادا تھے ، رئیس فروغؔ صاحب۔ میں نوجوانی کے جوش و جذبے سے بھرا، بحث و مباحثے میں بغیر جانے بوجھے ہر ایک سے بھِڑ جانے والا۔ تب تک میری صحبتیں عالم فاضل لوگوں سے رہی نہیں تھیں۔ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ عالم فاضل لوگ کیسے ہوتے ہیں اور کیسی، کس انداز کی کس اسلوب میں باتیں کیا کرتے ہیں۔ تو اپنی نا سمجھی اور نادانی میں بلکہ اپنی کم علمی اور ناواقفیت میں یہ ناچیز ’’ دادا‘ سے بھِڑ گیا۔ لگا اُن سے بحث کرنے۔ دادا نے میرے اختلافِ فکر بلکہ یوں کہیے کہ کج بحثی کا ذرا بھی بُرا نہ مانا۔ نہایت سنجیدگی اور رسان سے زیرِ بحث موضوع پر اپنے علم اور معلومات سے میرے کورے ذہن کو سیراب کرنے میں کوشاں رہے۔ غالباً جب انھوں نے بھانپ لیا کہ اُن کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں کہ سطح اُن کی ناچیز کی ذہنی سطح سے بلند تھی تو انھوں نے ہارماننے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے کے بجائے کاغذ قلم کا سہارا لیا اور کاغذ پر اپنی بات کو میری عقل کے مطابق کرنے کے لیے طرح طرح سے نقشے ، ڈائی گرام ، الفاظ ، ان کے معنی۔ مطلب یہ کہ ایسی مشقت انھوں نے گوارا کی کہ اب سوچتا ہوں تو شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہوں۔ ایک بار بھی کم علمی کا جہل کا، مطالعہ کے فقدان کا طعنہ نہ دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں تو خوب سمجھ دار ہوں، وہ سمجھانے میں ناکام ہیں۔ کئی گھنٹوں پہ محیط وہ نشست جسے آج تک بھول نہیں پایا کہ شام ریڈیو کے احاطے میں ایسادہ پیڑ کی شاخوں پر اُتر آئی تھی، چاروں طرف ملگجا اندھیرا سا پھیلتا جاتا تھا۔ ہم کمرے سے باہر نکلے تو وہ آگے آگے تھے، خوب دراز قامت شلوار قمیص اور غالباً واسکٹ میں ملبوس، سفید گھنے بال، چمکیلی آنکھیں، چہرے پر ہلکی غیر محسوس سی شرماہٹ کا غبار اور پیکر انکسار۔ ایسی عاجزی کہ جو نہ کھل کر ظاہر ہوتی تھی اور نہ ایسی پوشیدہ کہ محسوس ہی نہ ہوسکے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ غزل کے بہترین شاعر ہیں۔ قمر جمیل صاحب کی امّت میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر نثر نظموں کے شوق میں اپنی غزل گوئی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاچکے ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں۔ نمونتاً غزل کے چند ایک اشعار نقل کرتا ہوں۔ نہیں سنا تو سُنیے اور قیاس کیجئے کہ کیسے بھرپور امکانا کے شاعر تھے :
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پاکر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں

عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے

حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے

اب تک جو مجھے نہیں ملے ہیں
وہ پھول مرے لیے کھِلے ہیں

اپنے حالات سے میں صلح تو کرلوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اِک شخص ہے مرجائے گا

ان دنوں قمر جمیل عزیز آباد میں رہتے تھے۔ ان کے ڈرائینگ روم میں جو محفلیں جمتی تھیں ان میں دادا بھی موجود ہوتے تھے۔ قمر بھائی کے آگے یعنی ان کی خطابت کے سامنے کس کا چراغ جل سکا تھا جو دادا کا جلتا، زیادہ وقت خاموش رہتے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی لقمہ ضرور دیتے۔ اپنے مطالعے کی نمائش کے قائل نہ تھے۔ لیکن جو بات کہتے اس میں ان کی فکر اور مطالعہ دونوں جھلکتے تھے۔ نثری نظم کی تحریک میں ان کی شمولیت سے بلاشبہ تحریک کو ایک وقار اور اعتبار ملا تھا کہ باقی اُمّت تو نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ جو کالج اور یونی ورسٹی کی طالب علم تھی۔ سینئر میں دادا کے علاوہ احمد ہمیش تھے۔ عمر میں محمود کنور کا شمار بھی سینئر میں ہونا چاہئیے تھا لیکن انھیں بھی انگریزی ادب میں ایم اے کے طالب علم ہونے کی رعایت حاصل تھی۔
دادا کو ہم نے چار چھ سال سے زیادہ اپنے درمیان نہیں پایا۔ 1982ء میں وہ دنیا سے اچانک ہی رخصت ہوگئے۔ تب ان کی عمر مشکل سے چھپّن سال تھی۔ عمر کچھ زیادہ نہ تھی۔ اور جینا چاہئیے تھا انھیں۔ مگر نہ جیے کہ جینا کب آدمی کے اختیار میں ہے۔ میرا ان سے ذاتی ربط ضبط محفلوں کی حد تک رہا۔ معاملے کے مراسم کبھی نہ رہے۔ وہ مجھے اچھے لگتے تھے۔ اپنی غزلوں کی وجہ سے ، اپنی معصومیت کے سبب سے یا ان کے شرف آدمیت کا دخل تھا کہ دل میں ان کا احترام جاگزیں تھا۔ انھیں شہرت ، ناموری اور شناخت یا پہچانے جانے کا ذرا بھی ہوکا نہ تھا۔ بلکہ ان کے انتقال کے بعد عبید اللہ علیم کے رسالے ’’ نئی نسلیں‘ ‘ میں ان کی غزلوں کے ساتھ ان کا خط شائع ہوا تھا۔ عجیب ہی سا خط تھا۔ مدیر کے نام لکھا:
’’ چھپنے کے لیے شاعری دیتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے
اپنی شاعری نہ چھپواؤں ، نہ کسی کو سناؤں۔ وہ بس کسی مسٹیریس (پراسرار)
طریقے سے پھیل جائے اور کسی کو پتہ نہ چلے کہ لکھنے والا کون ہے؟ ایک
آدمی تمھارا شعر تمھارے سامنے دہرارہا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ اس
کے خالق تم ہو، جیسے افواہ، صاحبِ افواہ کے نام کے بغیر خود اپنی
قوّت سے پھیلتی ہے۔ ‘‘
’’ صاحب‘‘ ان کا تکیہ کلام تھا۔ اپنی بات کا آغاز اسی ’’صاحب‘‘ سے کرتے تھے۔ ان کی جو غزلیں ’’ نئی نسلیں‘‘ میں انتقال کے وقت چھپی تھیں، پہلی ہی غزل کے دو اشعار میں موت کا تذکرہ ہے:
شہروں کے چہرہ گر جنھیں مرنا تھا مرگئے
پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کرگئے

اونچی مسہریوں کے دُھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مرگئے
نثری نظم کی تحریک کے دوران بڑے اختلافات کے خارزار پودے باہمی تعلقات کے بیچ اُگے۔ طرح طرح کی چپقلشیں بھی ہوئیں۔ غیبت اور عیب جوئی کے سیاہ بادل بھی محفلوں پہ منڈلاتے دکھائی دیے۔ ہجو ملیح اور طنز و تضحیک سے بھی گاہ گاہ علاقہ رہا لیکن ان میں دادا کو کبھی شریک نہ پایا۔ عجیب سی مٹی کے بنے تھے دادا۔ کسی میں انھیں کوئی عیب دکھتا ہی نہ تھا۔ ممکن ہے دِکھنے پر نگاہیں نیچی کرلیتے ہوں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ عیب ہوں اور دِکھائی نہ دیں۔ ان کی معصومیت پر اس وقت جوبن آیا جب انھوں نے بچّوں کے لیے نظمیں لکھنی شروع کیں اور ٹیلی ویژن سے پیش ہوئیں۔
’’ ہم سورج چاند ستارے ‘‘ کسی پیاری پیاری نظمیں لکھیں۔ میرا گمان ہے بڑوں سے زیادہ بچّے انھیں جانتے تھے۔ وہ خود بھی ایک ’’ بڑے بچّے‘‘ ہی تھے اپنی عادات و اطوار کے لحاظ سے۔
جب کسی بات سے اتفاق ہوتا تو گردن ہلا کر کہتے :
’’ صاحب ! یہ تو ہے ‘‘
ان کے معصومانہ انداز پہ پیار آجاتا تھا۔ ان کی بے نفسی اور معصومیت کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ حج کا موسم تھا۔ دادا اور ان کے داماد ریڈیو کے آگے بیٹھے تھے۔ داماد حج کی بابت کوئی دستاویزی پروگرام سنتے جاتے اور دادا کو متوجہ کرتے جاتے کہ ذرا سنیے تو سہی کیسی زبردست معلومات ہیں۔ داد ا نے تائید میں سر ہلادیا ’’ہاں سن رہا ہوں ‘‘۔ پروگرام ختم ہوا تو اناؤنسر نے اعلان کیا کہ ابھی آپ نے دستاویزی پروگرام سنا جسے تحریر کیا تھا رئیس فروغؔ نے۔ دادا پہ تو کوئی اثر نہ ہوا، ویسے ہی بیٹھے رہے البتّہ داماد موصوف پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ایسے تھے دادا۔
۵ اگست ۱۹۸۲ء کی شام کبھی نہ بھولے گی۔ میں ریڈیو اسٹیشن گیا تو گیٹ ہی پر اطلاع ملی دادا چلے گئے۔ اندر داخل ہوا تو ہر طرف سنّاٹے کا راج تھا۔ دادا سے پہلی ملاقات یاد آئی۔ جب انھوں نے کیسے ضبط و تحمّل سے مجھے برداشت کیا تھا۔ ریڈیو کے سارے ہی لوگ دادا کو رخصت کرنے گئے تھے۔ میں بھی جمشید روڈ بھاگا جہاں ان کا قیام تھا۔ بندر روڈ کے ہجوم سے نکل کر وہاں پہنچا تو ان کے چھوٹے سے کوارٹر سے جنازہ اٹھایا جاچکا تھا۔ قبرستان میں تدفین میرے سامنے ہی ہوئی۔ شہر کے اکثر شعرا موجود تھے۔ شدّتِ غم سے ان کے سر جھکے ہوئے تھے۔ جب تک میّت قبر میں اتار نہ دئی گئی وہ سارے منظر کے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیسی عجیب سی بات ہے کہ آدمی پہلے تماشائی بنتا ہے اور پھر تماشا۔
رات کے وقت عبید اللہ علیم اور صابر ظفر دادا کی موت کی خبر اور تصویر لیے آئے کہ اُن دنوں میں ایک اخبار میں رپورٹنگ کے فریضے پر مامور تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ خبر اور تصویر چھپنے پریس چلی گئی ہے۔ تصویر میں دادا کے گھر سے لے آیا تھا۔ صابر ظفر نے پوچھا ’’ خبر کس صفحے پر چھپ رہی ہے ؟‘‘ یہ سُن کر کہ شہرے صفحے پر ، دونوں بہت مایوس ہوئے۔ صابر ظفر کہنے لگے پھر تو میری موت کی خبر چھپنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ میں انھیں کیا بتاتا کہ اخبار ہمارے ملک میں سیاست دانوں کے لیے نکلتے ہیں، شاعروں کے لیے نہیں۔

ظفر اقبال. رئیس فروغؔ کی شاعری

ظفر اقبال
کتاب: لاتنقید
صفحہ نمبر: ۲۲۶
سال: 2014ء

رئیس فروغ کی شاعری

 

 

شاعری، ظاہر ہے کہ سب سے پہلے خود شاعر کا مسئلہ ہوتا ہے اور اس کے بعد کہیں جاکر وہ قاری ، یا نقّاد کا مسئلہ بنتی ہے، کیوں کہ شاعر کے سامنے بھی اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ جوشاعری تخلیق کرنے جارہا ہے، وہ کس طرح ہونی چاہئیے، بالکل ایسی جیسی کہ اُس کے دل سے اُٹھ رہی ہے ، یا جیسی اُس کے قارئین کو پسند آسکتی ہو۔ ’ از دل خیز دو بردلریزد طرح کی شاعری تو اب ویسے بھی تخلیق کرنا ممکن نہیں رہا، کیونکہ لوگوں کے ذوقِ سخن میں خاصا تغیّر اور تنّوع پیدا ہوچکا ہے۔ جب کہ دل سے اُٹھنے والی آواز کے بارے بھی شاعر سب سے پہلے خود اپنے آپ کو مطمئن کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ کہ وہ اُس کے اُس معیار پر پوری اُتررہی ہے یا نہیں، جو اُس نے اپنے لیے طے کررکھا ہے، یا جس کی اُس سے عام طور پر توقع کی جاتی ہے۔
اسے انفرادیت کہا جاسکتا ہو یا نہیں، لیکن دوسروں سے مختلف ہونا ، یعنی جس حد تک بھی ممکن ہو، شاعر اس لیے بھی ضروری سمجھتا ہے کہ وہ شعرا کے ہجوم میں ایک تو صاف پہچانا جاسکے اور دوسرے اس طریقِ واردات سے اُس کے کلام میں ایک طرح کی تازگی بھی پیدا ہونے کا مکان بڑھ جاتا ہے جو ہر شاعر کی منزل مقصود بھی ٹھہرتی ہے کہ شاعری میں تازہ کاری ہی وہ اِسمِ اعظم ہے جو بند دروازوں کو کھولنے کا حُکم رکھتی ہے، جبکہ اس تازہ کاری کا حصول بھی جُوئے شِیر لانے سے کسی طور کم نہیں ہوتا، اور ، یہ ہرگز گوہرِ مراد حاصل کرنے کے لیے شاعر کو سو طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ بعض لوگ تو اپنے لیے راستہ ہی الگ نکالنے کا جتن کرتے ہیں، بے شک اس میں سُرخروئی ایک قلیل تعداد ہی کو حاصل ہو۔ چناں چہ اس مقصدِ عزیز کے حصول کی خاطر وہ اپنے تئیں جان کی بازی لگانے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں، اور بہت سے خطرات بھی مول لینے کے لیے مستعد۔
چناں چہ مبارک ہیں وہ لوگ جو اِس ضمن میں اپنے لیے ایک بالکل نئی اورا نوکھی ہی دنیا آباد کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بھی کئی ایسے ہوتے ہیں ، عمر جن کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔ اس ضِمن بہت سی افسوسناک مثالیں موجود ہیں۔ لیکن شکیب جلالی، جمال احسانی ، ثروت حسین اور رئیس فروغ ؔ تو جیسے کل ہی کی بات لگتی ہے۔ اگر یہ لوگ د س بیس سال بھی مزید رہتے تو بے مثال شاعری تخلیق کرنے پر یہ لوگ ہر طرح سے قادر تھے۔ ان میں سے شکیب اور ثروت تو ایسے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی زندگی کا چراغ خود ہی پھونک مارکر گُل کردیا جب کہ جمال احسانی کو کثرت مَے نوشی لے ڈوبی ۔ البتہ رئیس فروغؔ نے غالباً بیماری کے ہاتھوں لاچار ہوکر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
سو آج ہمارے پیش نظر رئیس فروغ ہی کا واحد مجموعہ کلام ہے جو 1982ء میں ’’ رات بہت ہوا چلی ‘‘ کے نام سے شمیم نوید نے مرتّب کرکے پیش کیا۔ اس مجموعے میں درج شاعری جو نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے ، اپنی تازگی اور دوسروں سے بہت حد تک مختلف ہونے کی بنا پر تادیر یاد رکھی جائے گی ۔ حتیّٰ کہ اگر وہ چند برس اور زندہ رہ جاتا تو اس کے متعدد پیروکار اس کا نام زندہ رکھنے کے لیے معرض وجود میں آچکے ہوتے۔ فیض صاحب نے بھی ایک بار انٹر ویو میں کہا تھا کہ شعر کو تازہ ہونا چاہئیے۔ میری دانست میں غالبؔ اپنی جس غیر معمولی خوبی کی بنا پر آج تک شعری ماحول پر چھایا ہوا ہے ، اُسے تازگی کے علاوہ اور کوئی نام شاید ہی دیا جاسکتا ہو۔ اور تازگی بھی وقتی نہیں بل کہ وہ جو تادیر باقی رہنے والی ہو۔ میرؔ صاحب خدائے سخن ضرور ہیں لیکن غالب کی تازہ کاری شاید انھیں بھی نصیب نہ ہوسکی۔ ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کی رائے میں میرؔ کلیات کے شاعر ہیں تو غالب انتخاب کے۔
اسی تناظر میں ، مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ قریباً ربع صدی گذر جانے کے باوجود رئیس فروغؔ کا کلام آج بھی روزِ اوّل ہی کی طرح تروتازہ محسوس ہوتا ہے، ورنہ دیکھا تو یہی گیا ہے کہ ایک شاعر دس سال کے بعد ہی ’’کھڑک‘ جاتا ہے۔ وہ اس لیے بھی کہ شاعری بھی کم و بیش دس برس کے بعد اپنا پیرہن اور فیشن تبدیل کرلیتی ہے اور جس میں بنیادی فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ پیرایہ ء اظہار خود وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں تبدیل کرتا رہتا ہے، اور ایک مخصوص مدّت کے بعد پرانے کی جگہ نیا طرزِ اظہر اپنی جگہ لینے کے لیے آن موجود ہوتا ہے۔ اور، یہ تبدیلی اس حد تک غیر محسوس ہوتی ہے کہ اکثر تخلیق کار اس سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ البتہ جو لوگ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں ، اُن کی شاعری میں مطلوبہ تبدیلی از خود ہی بروئے کار آتی رہتی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض مستقبل بیں شعرا کا پیرایہء اظہار ایک طویل عرصے تک نیا ہی رہتا ہے اور وہ ایسی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتا۔ رئیس فروغؔ ایک ایسے ہی شاعر تھے۔ چناں چہ رئیس فروغ جیسے لوگ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، اور مکھی پر مکھی مارکہ طرز اُسلوب سے اپنے آپ کو بطور خاص بچا کر رکھتے ہیں، خواہ انھیں اس ضمن کیسا ہی پِتّہ پانی کرنا پڑے۔ ایسا شاعر یا تو اپنے عہد میں یگانہ و یکتا ہوتا ہے، یا اُس جیسے یا اُس کے ہمسفر اُس عہد میں دوچار ہی ہوتے ہیں۔ بات بے شک نئی نہ ہو، لیکن بات کہنے کا طریقہ اگر نیا ہو تو شاعری کے میدان میں ایک تہلکہ تب بھی پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ رئیس فروغؔ نے زبان اور اس کے استعمال کے ضِمن میں کوئی انحرافی یا انقلابی پیش رفت نہیں کہ بل کہ مروّج زبان ہی کے بل بوتے پر بے حد عمدہ شاعری کا ایک نمونہ پیش کرنے میں سُرخرو ہوا۔ حال آں کہ اُس زمانے میں لسانی تجربات بڑے زور و شور سے روبہ عمل تھے، بل کہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکے تھے، اور ایسے تجربات سے عاری شاعری کو اہلِ فن کا ایک طبقہ رجعت پسندی کا نمونہ قرار دینے میں خاصا مستعد ہوچکا تھا۔ لیکن رئیس فروغؔ کے اندر جدّت اور تازگی کا جو وفور موجزن تھا، اُس کے لیے وہی کافی تھا جس کے ذریعے وہ اپنی جملہ سحر کاری برپا کرنے میں کامیا ب ہوا۔
ایک تو رئیس کو اپنے ہمعصروں میں یہ امتیاز حاصل تھا کہ اُس کے پاس نئے اور تازہ موضوعات کی کمی نہیں تھی، اور ، دوسرے اُس کا ڈکشن دوسروں کی نسبت جدید تر تھا۔ جب کہ انگریزی الفاظ اُس نے کمال خوب صورتی کے ساتھ اُردو میں سمو دیے تھے۔ اُس کی نظمیں زیادہ تر مختصر ہیں، اور ، شاید اسی لیے اثر انگیزبھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس راز کو پاچکا تھا کہ اب اُکتا دینے والی طویل نظم کا زمانہ نہیں ہے۔ اُس کی ایک نظم جو ایک بار پڑھنے پر بھی مجھے یاد ہوگئی تھی۔ بند کمرا کے زیرِ عنوان ہے اور جو اس طرح سے ہے
مجھے نہ کھولو
مرے اندھیرے میں
ایک لڑکی
لباس تبدیل کررہی ہے
اُس کی بعض نظمیں تو باقاعدہ حیران کردینے والی ہیں، مثلاً نظم ’’انکوائری ‘‘ دیکھیے:
کیوں گھومنے والی کرسی پر
اڑتا ہوا بادل جابیٹھا
کیوں کمپیوٹر کے کیبن میں
پھیلا ہوا جنگل جا بیٹھا
چھوٹے چھوٹے چالاکوں میں
کیوں بڑا سا پاگل جا بیٹھا
نظمیں ملی جُلی ہیں۔ یعنی آزاد بھی اور نثری بھی۔ نثری نظم کا زوردار ہونا تو سیے ہی بہت ضروری ہے کہ اس میں فالتو لفظ کی گنجائش ہوتی نہیں کیوں کہ ضرورتِ شعری نام کی چیز اس میں مفقود ہوتی ہے۔ ایک خوبصورت نثری نظم بہ عنوان ’’ نئے شہروں کی بنیاد‘‘
اُن کی بارگا ہ میں
جنگل کے شیر
جارُوب کشی کرتے ہیں
موت نے اُن سے وعدہ کیا تھا
آگ نہیں جلائے گی
ساتویں نسل تک
لیکن میں ہوں آٹھویں نسل میں
میں نے اُن کی سفید خوشبو کو محسوس کیا ہے
اُن کی دستار کا
ایک سِرا مشرق میں گُم ہے
ایک اور سِرا ایک اور مشرق میں گُم ہے
وہ سورج کے آگے آگے قبا پہن کر چلتے ہیں
ہم اپنی حدوں میں سِمٹے ہوئے
انھیں دیکھتے ہیں
اور کہتے ہیں
نئے شہروں کی بنیاد وہی رکھتے ہیں
جو جنگل کے شیروں کو
جارُوب کشی پر مجبور کردیں
ہم تو
اپنے گھوڑوں کی گردن پر
باگ بھی نہیں چھوڑ سکتے
اب ’’ لیڈی ڈُفرن‘‘ کے عنوان سے پابند نظم دیکھیں:
ہمیشہ پھولتا پھلتا ترا وجود رہے
جو آج کل تری باتوں میں سرسراتی ہے
وہ آگ وقت گذرنے کے باوجود رہے
میں چاہتا ہوں تِری مامتا کی بانہوں میں
ہر ایک سال نئے پھول کی بہار آئے
تمام عمر تِری چھاتیوں میں دودھ رہے
اسی طرح ’’ بوچر‘‘، ’’ریت کا شہر ‘‘ ، ’’ سانپ والی ‘‘ ، ’’ جنریشن گیپ ‘‘، ’’ایکسیڈنٹ ‘‘، ’’نئے پرندے ‘‘، ’’ سگِ ہم سفر اور میں ‘‘ ، ’’ زہر بھری‘‘ اور ’’ رازیا کا بھائی رافی‘] اپنے استحقاق میں بہت عمدہ نظمیں ہیں۔ اب اُس کی غزلوں سے چند شعر
تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے
جس نے ہمارا دل توڑا ہے اُس کو بھی بیٹا دینا
وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بیت گیا
اُسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
دریچے تو سب کھُل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
دھوپ نے اور جلایا تو فروغؔ
اور کچھ پیڑ لگائے میں نے
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل سیٹیاں بجا
شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے
کچھ اِتنے پاس سے ہوکر وہ روشنی گذری
کہ آج تک در و دیوار کو ملا ل سا ہے
سامنے کچھ دیر لہراتے رہے
پھر وہ ساحل بہہ گئے دریاؤں میں

رئیس فروغ ، جدید حسّیت کا شاعر تحریر: احتشام انور

رئیس فروغ ، جدید حسّیت کا شاعر
تحریر: احتشام انور

چند غزلیں، متفرق اشعار اور ادبی مکالموں میں تذکرے ، بس اتنا تعارف تھا میرا رئیس فروغ ؔ کے ساتھ۔ پھر محترم طارق رئیس فروغ نے جب ’’ رات بہت ہوا چلی ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن چھاپا تو ان کی مہربانی سے رئیس فروغؔ کو بھرپور اور بلا استیاب پڑھنے کا موقع ملا۔ قیام پاکستان سے انیس سو اسی تک کراچی شہر اپنے شعری فضا اور ادبی حلقوں کی گہما گہمی کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے شعراء نے جہاں نئے شہر کی ادبی فضا کی باریابی میں کلیدی کردار ادا کیا وہیں نئے شعراء کی تربیت کے لیے مکالمے کی روایت بھی جاری کی۔ جن کے سرخیل سلیم احمد اور قمر جمیل تھے۔ قمر جمیل ایک صاحب طرز شاعر تھے، جنھوں نے رئیس فروغؔ کی شعری انفرادیت اور حسّیت کا درک کرتے ہوئے انھیں وہ راہ دکھائی جس نے ان کے کلام کو مزید نکھارا۔ وہ قمر جمیل ہی کی ترغیب پر کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت چھوڑ کر ریڈیو پاکستان چلے آئے جہاں انہیں ایک بالغ شعری فضا میں خود کو سنوارنے کا بھرپور موقع ملا اور ان کی غزل اور نظم میں جدیدحسّیت نے اپنا احساس دلانا شروع کیا۔ شعر ان کے نزدیک معاشرتی کرب کے اظہار کا ذریعہ تھا۔ ان کی شعری حسّیت نے ان سے اپنا اور اپنے گرد موجود متعلقین کا نوحہ تحریر کروایا۔
سلیم احمد نے اپنے ایک مضمون میں جدیدیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ
’’ جدیدیت کی روح یہ ہے کہ کسی بات کو اس بنا پر تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ پہلے سے چلی آرہی ہے یا ہم پر خارج سے عائد کی گئی ہے یا ہم سے بالاتر ہے، بلکہ
ہر چیز کے حسن و قبیح، خیر و شر ، منفعت و مضرت کا فیصلہ تجربے کی روشنی میں کیا جائے، اس لیے جدیدیت کے معنی زیادہ تر تجرباتی ہونے کے ہیں۔ ‘‘
جدیدیت کے بارے میں میری اپنی رائے یہ ہے کہ جب ایک بالغ تخلیقی ذہن عصری حسّیت سے جڑتا ہے تو جدیدیت اپنا وجود نمایاں کرتی ہے۔ رئیس فروغ کی شاعری اپنی عصری حسّیت سے جڑی شاعری ہے ، جس کی واضح مثال یہ دو اشعار ہیں:
ویسے تو میں گلوب کو پڑھتا ہوں رات دن
سچ یہ ہے اک فلیٹ ہے جس کا مکیں ہوں میں
ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ
اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں
عصری کرب نے جب تخلیق کار کو آفاقیت کے دائرے سے دور فلیٹ اور بس کی حقیقی زندگی کی سچائیوں کی حسّیت میں مبتلا کیا تو ایک بالغ شعری ذہن نے اپنا بھرپور ابلاغی اظہار یہ پیش کیا کہ تخلیق کار جو خود کو ساری دنیا کا باشندہ تصور کرتا ہے حقیقتاً ایک چھوٹے سے فلیٹ نمازنداں میں روز اپنے خواب جلارہا ہے۔ گرچہ رئیس فروغؔ اور اقبال دو الگ الگ کیفیتوں کے شاعر ہیں اور ان کا شعری موازنہ میرا موضوع بھی نہیں، لیکن ایک بات ہے جس کے لیے اقبال کے ذکر کا محل بنتا ہے اور وہ ہے دو شعراء کے یہاں شعری حسّیت کی ٹریٹمنٹ (برتاؤ) کہ اقبال کائنات کے سربستہ رازوں کی تفہیم کرتے ہیں ، جبکہ رئیس فروغ کے یہاں علم اپنی عینیت میں موجود ہے، وہ قیاس اور گمان کے شاعر نہیں۔ ایک روایتی شہری تعقل (civic rationale) لیے خالص علت و معلول کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں انسان اور انسان سے متعلق رویوں اور مسئلوں کا وجدان ملتا ہے۔ وہ انسان کی آفاقیت کی طرف دھیان دینے کے بجائے انسانی معاشرت کے اختلافی پہلو اور تہذیبی رکھ رکھاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔ وہ شاعری کو خالص انسانی معاملات کا بیانیہ مانتے ہیں۔ اقبال کا انسان آسمانی مسافرت میں مصروف ہے، جبکہ رئیس فروغ کا انسان اپنی مٹی سے جڑا بیٹھا ہے اور اس کا شاعر اُسے اپنے اردگرد موجود مسائل پر نگاہ کرنے کی تلقین کرتا ہے اور وہ مسائل خواہ مذہبی ہوں، نفسیاتی ہوں، سیاسی ہوں، تمدنی ہوں، تہذیبی ہوں، معاشی ہوں یا نفسانی ، سب کے سب کو زمینی معاملہ گردانتے ہوئے اُن کے حل کے لیے زمینی وسیلہ تلاشنے کی ہمک دیتا ہے۔ اسلام اور دیگر ادیان میں موجود روحانیت کے تصور نے انسان کو جتنا فائدہ نہیں دیا شاید اُ س سے زیادہ نقصان پہنچایا، خرقہ اور خانقاہ نے انسان کا خدا کی ربوبیت پر یقین کا ستیاناس کردیا، ایک کمزور ذہن جس کی تہذیبی و علمی آبیاری نہ ہوئی ہو وہ بہت آسانی سے مقلّد بن جاتا ہے اور یہ تقلیدی رویہ اُسے رب اور ربوبیت کی حقانیت سے دور کردیتا ہے۔ کیوں کہ علم کا محمل اظہاریہ ناقص اذہان کی کاشت کا موجب بنتا ہے جو کسی صورت بھی علمی و اخلاقی برتری کی توجیہ نہیں ہوسکتا۔
جب کہ رئیس فروغؔ کا معاملہ ہرگز ایسا نہیں ہے وہ ایک بالغ ذہن کے ساتھ اپنے عصر سے جڑے معاشرتی حسّیت کو اپنے خون جگر کی سیاہی سے نہ صرف اعتبار بخشتے ہیں بلکہ ان کا شعری اظہاریہ جدید حسّیت کی ایک مثال ہے۔ رئیس صاحب کی شاعری انفرادی برتاؤ میں ایک خاص تغیر کا شکار نظر آتی ہے۔ لفظ اپنے دروبست مین بظاہر روایتی محسوس ہوتے ہیں، لیکن اپنے تاثر میں عصری حسّیت لیے بہترین ابلاغی اظہار رکھتے ہیں۔ ان کے مصرعوں میں جب شعری لہجے کی شکل واضح ہوتی ہے تو انفرادیت اپنی سادہ بیانی کے باوجود قاری و نقاد دونوں کو حیرانگی میں مبتلا کرتی ہے۔ جس کی چند مثالیں ذیل ہیں:
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
آنکھوں کے کشکول شکستہ ہوجائیں گے شام کر
دن بھر چہرے جمع کیے ہیں کھو جائیں گے شام کو
شہروں کے چہرہ گر جنھیں مرنا تھا مر گئے
پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کرگئے
اونچی مسہریوں کے دُھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مرگئے
دیے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا
اسی ہوا سے جل بھی رہا تھا اسی ہوا سے بجھا بھی ہے
حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
تمھیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمھارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
جدیدیت ، اصطلاحی معنوں میں ارتقائی اپچ کو کہہ سکتے ہیں۔ جس کی رو سے مقدمین سے متاخرین تک کی شاعری اپنی اپنی کیفیت اور برتاؤ میں جدید شاعری کی مثالیں ہیں۔ اردو شاعری میں جدیدیت کی پہلی کرن نظیر اکبر آبادی کے یہاں نظر آتی ہے، جو ایک مخصوص شعری حسّیت کے ساتھ ہر اہم شاعر کے پاس منتقل ہوتی گئی۔ نظیرؔ کے زمانے میں ہی میرؔ بھی جدید شاعری کی نیابت کرتے ہیں تو ان کے بعد غالب نے یہ باگ سنبھالی۔ ویسے غالب وہ واحد شاعر ہے جسے اس کے زمانے سے لے کر آج بھی جدید شاعری کا پیغمبر مانا جاتا ہے۔ پھر حالیؔ ، اقبال ؔ ، فیضؔ کے درمیان کئی اہم شعراء ہیں ، جن کی جدید حسّیت نے اردو شاعری کی راہ متعین کی۔ جدیدت کو گرچہ ایک ادبی تحریک قرار دیا جاتا ہے لیکن میری رائے اس حوالے سے مختلف ہے کہ جدیدیت کسی بھی تخلیق کار کی حسّیت کی ارتقائی اپچ کا نام ہے۔ جس کی مدد سے وہ تخلیقی چکر کو مکمل کرتا ہے۔ تخلیقی چکر سے مراد شاعر کا اپنے وجدان کا گیان ہے جس میں تحلیل ہو کر اس سے ایک واقعی مثالی فن پارہ تخلیق پاتا ہے، ویسے یہ ضرور ی نہیں کہ ہر فن پارہ مثالی ہو۔ اس بابت رئیس فروغؔ نے اپنے تخلیقی وجدان کا بیان خود کیا کہ ؛
جوئے تازہ کسی کہسارِ کہن سے آئے
یہ ہنر یوں نہیں آتا ہے جتن سے آئے
ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
جدید حسّیت کے شاعروں میں ایک اہم شاعر چارلس بودلئیر ہے ، جس نے اپنے زمانے کی رومانوی تحریک ، جس کے سرکردہ شعراء میں ہیوگوؔ ، لامارنینؔ ، میوسےؔ اور وینئیؔ کے آگے سرجھکانے کے بجائے زندگی کے بارے میں اپنی ذاتی تجربے کو بہترین شعری پیرائے میں بیان کیا ۔ اُس کا شعری مجموعہ ’’ بدی کے پھول ‘‘ کی تمام نظمیں سادہ زبان میں تخلیق کی گئیں۔ بودلئیر ؔ نے اُس وقت کی روش جس میں عشق و رومان شعر گوئی کے موضوعات کا بنیادی جز تصور کئے جاتے تھے، سے ہٹ کر عام انسانوں کی بات کی اور یہی موضوعات ہمیں رئیس فروغؔ کے یہاں بھی واضح ہوتے ہیں۔
بودلئیر انسان کے جذبات ، خیر و شر ، اخلاقی قدر، انسانی جبلّت ، فطرت کے مظاہر ، سزا و جزا، امکان و گمان ، مادّیت و روحانیت کا تصادم ، خدا کا تصور ، مذہب ، موت و زیست ، تزکیہء نفس ، مقدر کی حتمیت اور انسان کے ادراکی پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے۔ بودلئیر کی شاعری میں سب سے اہم موضوع فطرت کے لوازم کے اظہاریے میں انسان کی بے بسی پر خدا و فطرت کے لوازم کے اظہاریے میں انسان کی بے بسی پر خدا و فطرت کی بے نیازی ہے۔ بودلئیر اپنے ہم جنس کے لیے خدا اور فطرت دونوں کو ہی اپنا احتجاج نوٹ کرواتا ہے۔ وہ خوشی کی تفہیم کراتا ہے کہ روحانیت سے خالی کوئی بھی خوشی دیرپا نہیں ہوسکتی ، لہٰذا مآل کار ماسوا بے مداوا پچھتاوے کے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ سو اُس نے جنسی آسودگی کو بھی دائمی خوشی کی ایک لمحاتی حظ قرار دیا ہے۔
رئیس فروغؔ کی نظموں میں بھی بودلئیر کی نظموں کی طرح معاشرے کا حقیقی چہرہ نظر آتا ہے۔ یعنی سادہ بیانی اور موضوعات کا تنوع، خاص کر عشقیہ مضامین کی چھب میں بھی خالص علت و معلول کا بیانیہ ، جس میں کہیں تفہیمی انداز ہے تو کہیں شکایتی ۔خواہ وہ اپنے ہمزاد سے ہو، ہم نفس سے یا پھر قادر مطلق سے۔ یہ سب ان کی نظموں کا خاصہ ہیں۔ ’’نئے شہروں کی بنیاد‘‘ ، ’’آدھا سفرہم نے خیالوں میں کیا ‘‘، ’’ ریت کا شہر ‘‘، ’’ کمرہ‘‘، ’’ لیاری پیاری ‘‘ اور دیگر نظمیں اسی تسلسل کی ایک مثال ہیں، جو جدیدحسّیت کو برتتے ہوئے تخلیق کی گئیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ رئیس فروغؔ کے ذاتی و شعری زندگی میں کس قدر مطابقت بہم تھی، یہ تو ان کے متعلقین ہی بتاسکتے ہیں۔ لیکن ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ رئیس فروغؔ نے جب کہ جوشؔ ، فیضؔ ، ن م راشد، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی، شکیب جلالی جیسے شعراء کا سکّہ رائج تھا، اس وقت بھی اپنی اہمیت کا احساس دلایا اور آج بھی ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، جس کی مثال ادبی مکالمے میں ان کا متواتر ذکر اور عوامی حلقوں میں ان کے اشعار کی گونج ہے۔
حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
واللہ اعلم بالصواب!

جدید شاعری اور رئیس فروغ تحریر:حنیف عابدؔ

جدید شاعری اور رئیس فروغ
تحریر:حنیف عابدؔ

اردو شاعری میں تجربات ہر عہد میں ہوتے رہے ،کچھ اپنی موت آپ مر گئے اور کچھ نئی منزلوں کے نشان بن گئے ۔رئیس فروغ اردو شاعری میں جدیدیت کے اوّلین علم بردار وں میں سے ایک ہیں ۔ان کی شاعری عام ڈگر سے ہٹ کر پورے شعور کے ساتھ نئے امکانات کے در کھولتی ہے ۔ان کی شاعری میں تخلیقی وجدان پورے کمال کے ساتھ موجزن ہے ۔رئیس فروغ کا کمال یہ ہے کہ وہ روایت کوشعر کے باطن میں چھپا کر لفظوں کو ایک نئے انداز سے ’’اجالتے ‘‘ہیں۔ان کے اسی کمال کی وجہ سے شعر اپنی تمام تر رعنائی کے ساتھ نئے عصری شعور کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے ۔غزل ہو یا نظم رئیس فروغ دونوں اصناف میں اپنے ہم عصروں کے درمیان نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔رئیس فروغ کی شاعری میں کئی جہان آباد ہیں ۔بد قسمتی سے رئیس فروغ جیسی شخصیت کو ان کے کلام کے تناظر میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے ۔ نقادانِ فن نے کیوں اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برتا ؟یہ وہ سوال ہے جس کا درست جواب شاید وہی دے سکیں تاہم ایک بات ضرور کہوں گا سورج کی روشنی کو روکنے کے لیے ماحول میں کتنی ہی دھول اڑالی جائے سورج کی آب و تاب کوختم نہیں کیاجاسکتا۔
رئیس فروغ کے حوالے سے میرے لیے یہ طے کرنا ہمیشہ مشکل مرحلہ ثابت ہوا کہ وہ جدید نظم کے بڑے شاعر ہیں یا جدید غزل کے ۔ ان کی غزل اتنی موئثر اور ندرت کی حامل ہے جس کا اظہار کرنا مشکل ہے ،البتہ اسے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔وہ غز ل کی تمام روایات کے ساتھ جڑے ہونے کے باوجود مکمل طور پر اس سے الگ کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی غزلوں میں نغمگی ، موسیقیت ، ندرت خیال ، فکر کا ارتقا ء ، عصری شعور اور انسانی زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ان کے بہت سے اشعار مشہور ہیں میں یہاں ان شعار سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے دیگر شعروں پر بات کرنا چاہوں گا ۔رئیس فروغ کاسہل ممتنع بھی ایک الگ رنگ لیے ہوئے ہے ۔؂
ذرّہ بن کر آیا تھا
صحرا بن کر جاؤں گا
دریا جیسی بات نہ کر
پانی سے ڈر جاؤں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دور تلک جا سکتے تھے
تو بیٹھے بیٹھے بہل گیا
جھوٹی ہو کہ سچّی آگ تری
میرا پتھر تو پگھل گیا
رئیس فروغ کی لفظیات صرف نظم میں ہی جدت کا اعلیٰ نمونہ نہیں ہیں بلکہ غزل میں بھی انہوں نے وہ لفظ باندھے ہیں جن کا تصور تک محال ہے ۔جیسے ’’گلوب ، انجائنا ، فلیٹ ،بُلٹ وغیرہ ۔رئیس صاحب کا کمال یہ ہے کہ ان کی غزلوں میںیہ الفاظ ایسے جڑے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ ۔
غزل ایک ایسی صنف ہے جس میں اکثر شعرأ کی غزلوں میں ایک آد ھ شعر ہی ایسا نکلتا ہے جو حاصل غزل کہلاتا ہے ۔ بقیہ اشعار غزل کو پورا کرنے کے لیے کہے جاتے ہیں ان کا معیار وہ نہیں ہوتا ۔رئیس فروغ کی شاعری میں ایسی ایک بھی غزل نہیں جس میں صرف ایک آدھ شعر ہی ایسا ہو جو کی وجہ سے غزل کہی گئی ہو ۔ان کی غزلوں میں بہت محنت کے بعد شاید ایک آدھ شعر کسی غزل میں ایسا نکال سکیں جو دیگر تما م شعروں کے مقابلے میں کم معیار کا حامل ہو ۔
رئیس فروغ کی غزلوں میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ان کی غزلوں میں ایسے اشعار کی موجودگی ہے جو انسان کو اپنے ٹرانس میں لے لیتے ہیں ۔ان اشعار کے حصار سے نکلنا انسانی اختیار سے باہر ہو جاتا ہے ۔اُنہوں نے انسانی احساسات اور کردار کے بعض پہلوؤں کو اس جامعیت کے ساتھ غزل کے شعری قالب میں ڈھالا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ا ن کے بعض اشعار ایسے ہیں جواپنے اندر پورا افسانہ لیئے ہوئے ہیں ۔فرانس کے مشہور افسانہ نگار موپساں کا ایک افسانہ جس کا عنوان(Was it a Dreem ) کیا وہ خواب تھا ؟ہے ۔اس افسانے میں موپساں نے انسانی کردار کے جس پہلو کو بیان کرنے کے لیے پورا ایک افسانہ لکھا ہے اسے رئیس فروغ نے غزل کے ایک شعر میں بیان کردیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ؂
آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں
دیکھ لیاتھا خواب پرایا
رئیس فروغ کے اشعار میں پایا جانے والا وجدان اگر منکشف ہوجائے تو وہ انسان کو اپنے سحر میں ایسا جکڑتا ہے کہ اس سے باہر نہیں نکلا جاسکتا۔مسئلہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایسے اشعار بکثرت پائے جاتے ہی ۔ان کے وہ اشعار جن میں افسانے پوشیدہ ہیں ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ ان کے دیگر موضوعات میں جنسیات بھی ایک اہم ترین موضوع ہے جو ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
مرا بدن جس کو چاہتا تھا
کسی نے وہ زہر پی لیا ہے
اک سانولی چھت کے گرنے سے
اک پاگل سایہ کچل گیا
ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کر
رات کی پیاس بجھا ئی ہے

رئیس فروغ نے بحیثیت تخلیق کار اپنا کام کردیا ۔انہوں نے اردو شاعری کے دامن میں جو متاع ڈالی ہے اس کی حفاظت اور شناخت کا فریضہ جس انداز سے انجام دیا جانا چاہیے تھا اس میں یقیناً کوتاہی برتی گئی ہے ۔رئیس فروغ جیسے عہد ساز شاعر کو ازسر نو دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اس خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ہو گا ۔ حالات کے دھارے پر بہنا تو رئیس فروغ نے خود بھی پسند نہیں کیا تھا ہم کیوں کررہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ
اپنے حالات سے میں صلح تو کرلوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکایتیں ہی کرے گا کہ خود غرض نکلے
وہ دل میں کوئی بْلٹ تو نہیں اْتارے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی کمی کی وجہ سے میں اختصار سے کام لیتے ہوئے رئیس فروغ کی شاعری کے چند چنیدہ پہلوؤں کی جانب آپ اہل نقد و نظر کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا ۔ رئیس فروغ کی شاعری پوری قوت کے سا تھ اپنے عہد میں سانس لے رہی ہے ۔وہ ادب برائے تبدیلی کے پیروکار تھے ۔ان کی شاعری کے موضوعات ، لٖفظیات ، استعارات ، تشبیہات اور علامات اپنے قاری کو ایک نئی لیکن آشنا دنیا سے متعارف کراتے ہیں ۔جدید نظم میں لفظیات کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ان کی نظم دیتاں جدید نظم کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے ۔ ’’گریٹ آئیڈیاز میں گھرا ولیم جیمز اور سبزی کے تھا ل کی چھری ‘‘کی علامت سے اس نظم میں انہوں نے جو منظر کشی کی ہے وہ ان کی قدرتِ فن کی بہترین مثال ہے ۔ان کی ایک اور نظم ’’خانم جان ‘‘روایت کی کوکھ سے جنم لیتا ہوا ایک نیا سورج ہے ۔رئیس فروغ نے جدید نظم میں جو علامات تخلیق کی ہیں وہ چونکادینے والی لیکن قابل فہم ہیں ۔ان کی شاعری میں ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔قاری جیسے جیسے ان کی شاعری پڑھتاجاتا ہے اس پر معنیٰ کا ایک نیا جہان منکشف ہوتا ہے ۔

تحریرۛ حسین سحر

تحریر: حسین سحر
رسالہ: اہلِ قلم ۷
ملتان
دسمبر ۱۹۸۵ء

رئیس فروغؔ برزخ کے وی آئی پی روم میں ؍ وزیری پانی پتی ؍ مخدوم منوّر

رئیس فروغ مرحوم ہر لحاظ سے ایک جدید شاعر تھے۔ ان کا لہجہ نہایت واضح اور توانا تھا۔ بچوں کی شاعری سے لے کر ریڈیو اور ٹی وی کے گیتوں تک ہر جگہ ان کے لہجے کی توانائی برقرار تھی۔ نئی غزل کا تو وہ اعتبار تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک خوبصورت انسان تھے۔۔۔۔ان کی وفات کے بعد ان کا مجموعہ کلام ’’ رات بہت ہوا چلی ‘‘ شائع ہوا۔ تو اسے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ اب ان کے ہمد م دیرینہ وزیری پانی پتی اور مخدوم منور نے ان کے فن اور شخصیت پر ایک عمدہ کتاب شائع کی ہے ’’ رئیس فروغ برزخ کے وی آئی پی روم میں ‘‘۔ اس کتاب میں فروغ ؔ کی شخصیت اور شاعری کے تنقیدی جائزے کے علاوہ بچوں کی شاعری میں ان کا مقام، منظوم نذرانے اور فروغ ؔ ہم عصر شعراء و ادباء کی نظر میں کے عنوان سے متعدد اہل قلم کے مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامین رئیس فروغؔ کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوں گے۔ ضخامت ۱۷۶ صفحات ، قیمت ۲۵ روپے اور ناشر ہیں ادبی معیار پبلی کیشنز ، پوسٹ بکس نمبر 3278صدر کراچی۔۳

کپاس کا پھول رئیس فروغ کا خاکہ تحریر ممتاز رفیق

رئیس فروغ صاحب ہمیشہ میرے لیے خوش بو سے بھری بند کتاب کی طرح رہے. مجال ہے کہ میں ان سے رات دن کی قربت کے باوصف انہیں اتنا جان سکتا کہ آج جب میں ان کی تصویر بنانے بیٹھا ہوں تو انہیں ان کے پورے جمال اور کمال کے ساتھ پوٹرے کر سکتا۔  یہ نہیں کہ وہ بولتے نہیں تھے یا میری ان پر توجہ کم تھی لیکن شاید ایسا اس لئے ہوا کیوں کہ ابھی میں نے لفظی مصوری کا ارادہ نہیں باندھا تھا اور نہ ہی میرا مشاہدہ ایسا تھا کہ انسان کو پرت در پرت کھول سکوں ۔ یہ تو بہت بعد کا قصہ ہے کہ میں نے جاناکہ آدمی کے بھیتر ایک پورا جہاں آباد ہوتا ہے اور اس کے رنگ کیسے پکڑ میں آتے ہیں۔  ان دنوں میں کچی عمر کا ایک مصرعہ ساز ہوا کرتا تھا، اور ریڈیو میں جناب قمر جمیل کا کلام دل نواز مجھے بولائے دیتا تھا وہ شاعری کی ایسی اعلی و ارفع مثالیں پیش کیا کرتے کہ مجھے ان کے سامنے میر و غالب کی شاعری بھی ایک کارزیاں محسو س ہوتی ۔ یہ جدید طرز فکر رکھنے والوں کی منڈلی تھی اور ان دنوں وہ اپنے سرخیل قمر جمیل کے ساتھ غزل سے نالاں اور نثری نظم کے علم بردار تھے . ان میں افضال احمد سید ، عذرا عباس ، احمد ہمیش اور خود قمر بھائی کی نثری نظموں میں اس صنف کا مستقبل خاصا روشن نظر آتا تھا ان کے علاوہ سید ساجد، شوکت عابد ،ناظمہ طالب اور کئی اور نوجوان بھی بڑی چوکسی سے نثری نظمیں لکھ رہے تھے ۔ اسی محفل میں پہلی بار میں نے خوش قامت اور دل کو موہ لینے والی مسکراہٹ کے مالک رئیس فروغ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قمر بھائی اور لڑکے لڑکیاں ان سے نیم وحشی صنف غزل سنانے کی فرمائش کررہے ہیں۔  میں نے سوچا یہ کیسے بے پناہ شاعر ہیں کہ باغیوں کا یہ گروہ ان سے غزل سننے کا متمنی ہے ۔ فروغ بھائی نے غزل شروع کی تو کینٹین میں بیٹھے کتنے ہی دیگر نام ور اس میز کی طرف کان لگائے بیٹھے دکھائی دیئے یوں بھی رئیس فروغ بہت کھلے ڈھلے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں ایسی مخفی جاذبیت تھی کہ ان سے ملاقات کے دوران آدمی کے پاس ان میں محو ہوجانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا تھا۔

 

فروغ بھائی طبعا ایک خاموش انسان تھے جیسے ریشم کا ایک الجھا ہوا گچّھا، مجھے لگتا جیسے اس چپ میں کوئی بھید پوشیدہ ہے لیکن میں اس راز کو کبھی نہیں جان سکا ۔ وہ اتنے مطمئن اور خوش باش نظر آنے والے فرد کے بارے میں صرف اندازے ہی قائم کیے جاسکتے ہیں.  مگر.  کیا میں اور کیامیری اوقات کہ اپنے خیال کی تصدیق کر سکتا .  میری کیفیت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ایسی تھی۔ نوجوان دانش وروں کی اس محفل میں رئیس فروغ، ثروت حسین اور افضال سید کے علاوہ میں نے کسی کو کبھی غزل سناتے نہیں دیکھا . یہاں ہمہ وقت رانبو، بودلیئر اور دیگر فرانسیسی شاعروں اور مفکروں کا چرچا رہا کرتا کبھی کبھار شوکت عابد ہسپانوی شاعروں کا ذکر بھی لے بیٹھتا لیکن اس بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا جاتا۔ فروغ بھائی اس گروہ میں قمر بھائی اور احمد ہمیش کے بعد سب سے زیادہ نمایاں فرد تھے۔ایک باوقار اور بااعتماد انسان جو دوسروں پر جان وارنے کا حوصلہ بھی رکھتا تھا۔ میں نے فروغ بھائی کو ہمیشہ نوجوانوں کی ہمت افزائی کرتے دیکھا وہ مجھ ایسے بے نشان لڑکے کے اشعار بھی توجہ سے نہ صرف سنا کرتے بلکہ ان کی دل سے داد بھی دیا کرتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پر وہ اسکرپٹ رائیٹر کی حیثیت سے فائز تھے اور اس قدر انہماک سے دفتری کا م کرتے کہ اب سوچتا ہوں تو مجھے رشک آتا ہے جب وہ کاغذ پر پینسل سے حرف کاڑھنے میں مشغول ہوتے تو انوپا (صفیہ حیدر) کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ انہیں ڈسٹرب کرسکے.  حالانکہ وہ انوپا کو نثری نظم کی شاعرہ کی حیثیت سے پسند کرتے تھے پھر دادا کو انوپا کی آواز بھی پسند تھی ۔ رئیس فروغ صاحب دیکھنے میں کیسے دکھائی دیتے تھے ؟ یہ سوال یقیناً آپ  کے دماغ میں کھد بد کررہا ہوگا۔ تو میرے عزیز وہ ایک نہایت دیدہ ذیب شخصیت کے مالک تھے۔ پیچھے کو پلٹے ہوئے چاندی کے لچھوں ایسے بال اور فراخ بے داغ ماتھا اور درمیانی بھوؤں کے نیچے جگ مگ کرتی روشن آنکھیں ، جن میں ہر آن کوئی خیال تیرتا نظر آتااور رنگت گیہوں کے نوخیز دانے ایسی اور باریک ہونٹوں پر ایک دائمی مسکراہٹ جو جیسے ان کی شخصیت میں آویزاں تھی اور ٹھوڑی کم زور یعنی ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑدیتا ہوں اور پیٹ کسی سلیقہ مند بی بی کی پکائی چپاتی کی طرح اور لمبی ٹانگیں ان سے مل کر انسان کو اپنی شخصی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ وہ بظاہر ایک لاپرواہ اوربے فکرے انسان دکھائی دیتے تھے لیکن ایسا تھا نہیں انہوں نے تمام عمر ریڈیو میں نہایت ذمہ داری سے ملازمت کی اور میں دیکھتا کہ شام کو دفتر کا وقت ختم ہوتے ہی جب کینٹین میں مکالمے کا بازار گرم ہوتا،  فروغ بھائی پر ایک بے چینی سی سوار ہوتی جیسے وہ رسی تڑا کر بھاگ لینے کو بے تاب ہوں اور پھر کسی نہ کسی بہانے وہ واقعی گھر کے لئے  نکل لیتے ۔ ان کے جانے کے بعد قمر بھائی مسکرا کر ہانک لگاتے کوئی کسی دن دادا کو روک کر دکھاؤ. وہ واقف تھے کہ یہ ممکن نہیں ہے میں ان سے برسوں کے تعلق کے باوجود کبھی یہ نہیں جان سکا کہ ان کا قیام کراچی میں کہاں ہے .شاید وہ دوستوں کو گھر بلانا پسند نہیں کرتے تھے ،لیکن میرا خیال ہے کہ شاید یہ پورا سچ نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک دوست دار انسان تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ دوستوں کو گھر پر خوش آمدید کہنا پسند نہ کرتے ہوں یقیناًاس کی کو ئی اور وجہ رہی ہوگی۔ جیسے کبھی کوئی بھی یہ نہ جان سکا کہ وہ اپنے ساتھ ایک مہلک بیماری کو لئے پھرتے ہیں ۔ ریڈیو کینٹین میں ہی میرے گناہ گار کانوں نے رئیس فروغ صاحب کو نثری نظم سناتے سماعت کیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ قمر بھائی نے انہیں نثری نظم لکھنے پر مجبور کرکے ان کے ساتھ بہت ناانصافی کی کہ فروغ بھائی کا میدان تو رچی اور سجی ہوئی غزل ہی تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ دادا نے قمر بھائی کے کہنے پر نثری نظم لکھی وہ انکار کرسکتے تھے تو میرے بھائی وہ بھلے دن تھے دادا ٹھہرے ایک دوست پرست ان میں انکار کا یارا کہاں تھا۔ قمر بھائی کا یہ عمل ایسا ہی تھا جیسے میٹھے پانی کے چشمے پر سے اٹھا کر کھارا پانی پینے پر مجبور کیا جائے۔ دادا کو میں نے کبھی کوئی مشاعرہ پڑھتے نہیں دیکھا وہ اسے وقت کا زیاں خیال کرتے تھے کہا کرتے بھائی اتنے مجمع میں بھلا شاعری سے لطف اندوز ہونا ممکن ہے یہ تو ہاؤ ہو کا میلہ ہوتا ہے اور میں اس تماشے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں۔ جب کبھی وہ شعر پڑھتے تو ان کی آواز بہت بلند ہوتی اور ہر لفظ کو پوری صحت کے ساتھ ادا کیا کرتے .مجھے محسوس ہوتا کہ شعر پڑھتے ہوئے وہ خود بھی شعر سے حظ اٹھاتے ہیں۔ شعر پڑھنے کا ان کا اپنا ایک منفردڈھنگ تھا ،وہ ہر مصرعہ ایک جھٹکے کے ساتھ ختم کرکے سامعین پر ایک نظر ڈالتے اور پھر ان کے لبوں پر ایک باریک سی مسکراہٹ جگہ بناتی اور اسی کے ساتھ وہ شعر مکمل کرتے۔ فروغ بھائی کے انتقال کے بعد ان کا مختصر سا شعری مجموعہ رات بہت ہوا چلی” شائع ہوا اور میں نے جانا کہ” اصل چیز کثرت نہیں معیار ہوتا ہے .اسی طرح ثروت حسین کا مجموعہ “آدھے سیارے پر”، بھی نہایت سرسری انداز میں شائع ہوا لیکن یہ تخلیق کی طاقت تھی کہ یہ دونوں شاعر آج بھی زندہ ہیں بلکہ ہمیں اپنے اردگر د موجود محسوس ہوتے ہیں۔  مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فروغ بھائی کا ریوائول  ہورہا ہے اور وہ نئے سرے سے شاعری کے شیدائیوں کے دلوں میں جگہ بنارہے ہوں۔  رئیس فروغ بھائی سے جو ایک بار مل چکا ہے اس کے لئے  یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ انہیں فراموش کردے اور ہمارے تو خیر وہ دل میں رہتے ہیں ۔ اب ان کی باتیں لاکھ قصہ کہانیاں سہی لیکن ان کا وجود پوری قوت سے ہمارے اردگرد موجود رہتا ہے ۔کیا نہیں؟